اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے اسلام آباد سے لاپتہ فیضان عثمان کی بازیابی اور اغواء کاروں کے خلاف کارروائی کی درخواست پر گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
ہائیکورٹ نے اسلام آباد کی تمام انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن ایجنسیوں، بشمول آئی بی، ایف آئی اے، آئی ایس آئی، ایم آئی کے ڈائریکٹر جنرلز، ایئر اور نیول انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل اور سی ٹی ڈی پنجاب کو کیس میں فریق بنانے کی ہدایت کی۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ چیف کمشنر اسلام آباد کو بھی شامل کیا جائے اور ان سے بیان حلفی جمع کرانے کو کہا گیا کہ ان کے دائرہ اختیار میں جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وضاحت کریں۔ درخواست گزار فریقین کا ترمیم شدہ میمو پیش کریں اور نئے فریقین کو نوٹس جاری کیے جائیں۔
عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن ایجنسیاں اس بات کی رپورٹ دیں کہ کیا انہیں فیضان کی جبری گمشدگی کے بارے میں معلومات ہیں۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر بتائیں کہ کیا وہ اغواء کاروں اور استعمال ہونے والی گاڑیوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیاں قومی سلامتی کی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہیں اور انہیں اپنی ڈیوٹی کی نوعیت کے مطابق کام کرنا چاہیے۔
جسٹس بابر نے کہا کہ شہریوں کے گھروں پر چھاپوں کا تاثر اور شہریوں کے اغواء کا الزام قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، ان الزامات کا واحد حل شفاف تفتیش اور مجرموں کی سزا دینا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ اگر مغوی واپس آ جاتا ہے تو درخواست غیر مؤثر نہیں ہوگی، کیونکہ یہ درخواست آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی دائر کی گئی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اسے حکومت یا کسی بھی اتھارٹی کو آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے ہدایت دینے کا اختیار ہے۔
تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار نے اغواء کاروں کی شناخت اور تفتیش کی درخواست کی ہے، اور آئی جی نے تحقیقات میں ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے عدالت کو پرانے اقدامات کے دوہرانے کی کوشش کی ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت 17 اکتوبر کو مقرر کی۔