لاہور: برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شاعر احمد فراز نے اپنی رومانی اور انقلابی شاعری کے ذریعے ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ اپنے لاکھوں مداحوں سے جدا ہوئے 16 برس بیت چکے ہیں، مگر آج بھی ان کی شاعری دلوں کی گہرائیوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔
انقلاب اور رومانی کا حسین امتزاج پیش کرنے والے معروف شاعر احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا۔ وہ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے اور پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ شاعری کا آغاز کالج کے دور سے ہوا، لیکن 1950ء سے احمد فراز کے نام سے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔
احمد فراز کی پہلی شعری تصنیف “تنہا تنہا” تھی، اور ان کی دیگر مشہور تصانیف میں “درد آشوب”، “شب خون”، “میرے خواب ریزہ ریزہ”، “بے آواز گلی کوچوں میں”، اور “سب آوازیں میری ہیں” شامل ہیں۔
احمد فراز نے بے شمار مقبول نظمیں اور غزلیں لکھیں جنہیں غلام علی، نور جہاں، سلمی آغا، ارونا ایرانی، جگجیت سنگھ، اور مہدی حسن جیسے کئی معروف گلوکاروں نے گایا اور انہیں لازوال بنا دیا۔
احمد فراز نے اردو شاعری کو عالمی سطح پر ایک نئی پہچان دی اور چھ دہائیوں پر مشتمل ادبی زندگی میں انقلابی شاعری کے ذریعے دنیا بھر میں ہزاروں مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔
اردو ادب کے لیے ان کی بے شمار خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز، اور ہلال پاکستان جیسے اعلی اعزازات سے نوازا۔
عظیم شاعر احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پا گئے، مگر ان کی شاعری آج بھی ان کے چاہنے والوں کے لیے ایک مشعل راہ بنی ہوئی ہے۔