دبئی۔متحدہ عرب امارات میں فیملی قوانین میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کا نفاذ رواں برس اپریل سے ہوگا۔
عرب میڈیا کے مطابق، متحدہ عرب امارات میں بچوں کی تحویل، مالی حقوق، اور تعلیمی سرپرستی جیسے اہم خاندانی معاملات میں ترامیم کی گئی ہیں۔
ان ترامیم میں شادی کے لیے عمر کی حد، والدین کے ساتھ بدسلوکی، اور بچوں اور خاندانوں کے تحفظ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
لڑکوں اور لڑکیوں کی والد کی تحویل میں دینے کی عمر 18 سال کر دی گئی ہے، جب کہ پہلے یہ عمر کم تھی اور بچے عموماً ماؤں کے پاس رہتے تھے۔
نئی دفعات کے تحت، 15 سال کی عمر کے بچے یہ انتخاب کر سکیں گے کہ وہ والد یا والدہ میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تاہم عدالت ان کے فیصلے کو ان کے بہترین مفاد کے مطابق جانچے گی۔
سنگین طبی یا نفسیاتی مسائل کا شکار بچے 18 سال کی عمر کے بعد بھی ماؤں کے پاس ہی رہیں گے جب تک کہ عدالت یہ نہ فیصلہ کرے کہ متبادل انتظام بچے کے لیے بہتر ہے۔
قانون میں کی گئی نئی ترمیم کے مطابق، غیر مسلم ماؤں کو عدالت کی منظوری سے اپنے پانچ سال سے زائد عمر کے بچوں کو مسلمان والد سے اپنی تحویل میں لینے کی اجازت ہوگی۔
تعلیمی سرپرستی پہلے ماؤں کے پاس ہوتی تھی لیکن اب فوری مسائل کو عدالت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
تحویل کے دعوے دائر کرنے کے قانون میں نئی ترمیم کے تحت، والدین کو دعوے دائر کرنے کے لیے چھ ماہ کی بجائے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔
مزید برآں، اگر دعویدار تاخیر کی مناسب وجوہات پیش کرے تو عدالتیں مزید وقت بھی دے سکتی ہیں۔
نئے قانون کے مطابق، ماں اور باپ کو بچوں کے ساتھ مساوی سفری حقوق دیے گئے ہیں، جس کے تحت والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کے ساتھ سال میں 60 دن تک اکیلا سفر کر سکتا ہے۔
نئے قوانین کے تحت بیویاں اب چھ ماہ تک پچھلے وظیفے کا دعویٰ کر سکتی ہیں اور اس میں اضافے کی درخواست بھی کر سکتی ہیں۔
اسی طرح بچوں کی شناختی دستاویزات کے حوالے سے سخت ترامیم کی گئی ہیں۔
سفری شرائط کی خلاف ورزی یا بچوں کی سرپرستی کے دستاویزات فراہم نہ کرنے پر 5 ہزار درہم سے 10 ہزار درہم تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔