نئی دہلی ۔بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے ہٹا میں سرکاری ادارے ایک اور مسجد کے خلاف کارروائی کی تیاری میں مصروف ہیں، جس کے تحت مسجد کا سروے کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی جواز پیدا کرکے اسے مسمار کیا جا سکے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، مودی حکومت اپنی مسلم مخالف پالیسیوں پر شدت سے عمل پیرا ہے اور مسلمانوں کو مذہبی، سماجی، اور معاشرتی سطح پر محدود کرنے کے لیے ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔
تازہ واقعے میں، حالیہ تعمیر شدہ مدنی مسجد کو انتہا پسند ہندو تنظیموں کی شکایات پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ مسجد کی تعمیر تمام قانونی تقاضوں کے مطابق کی گئی تھی۔
اتر پردیش کے ضلع کشی نگر میں، بھگوا تنظیموں کی جانب سے مسجد کو سرکاری زمین پر تعمیر کا الزام لگا کر انتظامیہ کو شکایت کی گئی، جس پر فوری طور پر مسجد کی زمین کا سروے شروع کر دیا گیا۔
سروے کے دوران پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی، جبکہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے مسجد کی زمین کی پیمائش مکمل کی۔ تاہم، مسجد کمیٹی کے بارہا مطالبے کے باوجود ضلعی انتظامیہ نے سروے کی رپورٹ فراہم نہیں کی، جس سے خدشہ ہے کہ رپورٹ میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔
انتہا پسند ہندو تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ مدنی مسجد سرکاری اراضی پر تعمیر کی گئی ہے۔ دوسری جانب مسجد کے نگراں کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی نے اس زمین کو 15 سال قبل خرید کر مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کیا تھا، اور تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں۔
مسجد کے نگراں نے واضح کیا کہ مسجد نہ تو سرکاری زمین پر بنی ہے اور نہ ہی کوئی تجاوزات کی گئی ہیں۔ جتنی زمین کے قانونی کاغذات ہیں، اتنی ہی پر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اترپردیش کے علاقے سنبھل میں بھی ایک تاریخی مسجد کو سروے کے نام پر مندر قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس دوران پولیس کی جانب سے مسجد کی بےحرمتی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر گولیاں چلائی گئیں، جس کے نتیجے میں 4 نوجوان شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔