اسلام آباد ۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ کوئی ملک پاکستان کے ڈیپازٹ اور قرضوں میں توسیع کے لیے تیارنہیں ،عطیات سے ملک نہیں چلتے ٹیکسز پر چلتے ہیں ، صوبوں میں زرعی ٹیکس لگنا ہے، ملک کو چلانے کے لیے نجی شعبے کو آگے آنا ہوگا، آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے میں کوئی چیز خفیہ نہیں ہے، کوئی بھی ملک ڈیپازٹ یا قرض کو روول اوور کرنے کو تیار نہیں البتہ چین اور سعودی سمیت دیگر ممالک سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمداورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کا کام صرف پالیسی دینا ہے، کاروبار چلانا صرف نجی شعبے کا کام ہے، ملک عطیات سے نہیں چلتے ٹیکسز پر چلتے ہیں، ہر کسی کو ٹیکس دینا ہو گا۔
محمد اورنگزیب نے صحافی کے منی بجٹ سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ خاطر جمع رکھیں اللہ خیر کرے گا۔ ٹیکس ریونیو آئی ایم ایف پروگرام کا ایک حصہ ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سے کام کرنے والے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ صوبوں میں زرعی ٹیکس لگنا ہے، اس کے لیےقانون سازی کی جائے گی، قومی مالیاتی معاہدے کے لیے 30 ستمبر کا ہدف تھا، اس حوالے سے تعاون پر صوبوں کا مشکور ہوں، ریونیو، اخراجات اور گورننس پر صوبوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ نئے فائلرز کے حوالے سے ہم ہدف سے بہت آگے ہیں، آئی ایم ایف وفد کو ری ٹیلرز سے ٹیکس وصولی میں پیش رفت کے بارے میں آگاہ کریں گے، بتائیں گے کہ ٹیکس وصولی کا کتنا ہدف تھا اور 3 ماہ میں کتنا وصول کیا۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ری ٹیلرز سے درخواست ہے ہمارے ساتھ مل کر چلیں، مالی گنجائش کے لیے پنشن اصلاحات اور ڈیٹ سروسنگ (قرضوں اور سود کی ادائیگی) پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا چاول اور مکئی سمیت دو بڑی فصلوں میں کوئی عمل دخل نہیں، پچھلے سال ان کی برآمدات 4 ارب ڈالر رہیں، چینی اور گندم سمیت جہاں حکومتی عمل دخل ہے اسکینڈل اور مسائل درپیش ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی ملکیتی اداروں کی کئی سال پہلے نجکاری ہو جانا چاہیے تھی، ایف بی آر کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کیا جائے گا، ایف بی آر کے گوشوارے جمع کروانے کیلئے کنسلٹنٹ سے مدد لینا پڑتی ہے۔
محمداورنگزیب نے کہا کہ کاروباری طبقہ اسپیڈ منی سے اجتناب کرے، ہم ایف بی آر میں مکمل اصلاحات پر کام کر رہے ہیں، ملک میں مہنگائی میں کمی کیلئے صوبوں کو اقدامات کرنا ہوں گے، ملک میں میکرو اکنامک استحکام آچکا ہے، گزشتہ 12 سے 14 ماہ میں بہت بہتری آئی ہے، کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ ذخائر میں استحکام آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مارچ سے جون تک زرمبادلہ ذخائر 3 ماہ کی درآمدات کے مساوی ہو جائیں گے، ملک میں مہنگائی میں کمی آئی ہے اس کا فائدہ آدمی کو پہنچنا چاہیے، عالمی مارکیٹ میں چکن پرائس میں 14 فیصد کمی، پاکستان میں 15 فیصد اضافہ ہو گیا، حکومت نے 1 ارب ڈالر قرضہ واپس کیا، زرمبادلہ ذخائر پھر بھی بہتر ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض معاہدے میں کوئی چیز خفیہ نہیں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9 سے 10 فیصد پائیدار نہیں ہے، ٹیکس اصلاحات لانا ہوں گی، اسٹرکچرل اصلاحات ضروری ہیں، عطیات سے ملک نہیں چل سکتے، نجی شعبے کو اس ملک کو چلانے کے لیے آگے آنا چاہیئے۔ایف بی آر کی بطور ادارہ ساکھ اور اعتماد بحال کرنا ہے، اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزیشن کیلئے ٹیکنالوجی پر فوکس ہے، بطور تنخواہ دار میں بھی بغیر ایڈوائزر کے ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کر سکتا، ڈیجیٹلائزیشن میں آگے بڑھ رہے ہیں، لیکیج بند کریں گے، ری فنڈز میں رشوت اور کرپشن والا کام بند کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ڈپازٹ اور رول اوور کرنے کے لیے اب کوئی تیار نہیں ہے، چین، سعودیہ، یو اے ای سمیت دوست ممالک سے سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہیں، چین کے ساتھ سی پیک فیز ون انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے لیے تھا، سی پیک کا فیز ٹو بزنس ٹو بزنس ہے، وزیراعظم براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کیلئے بہت کلیئر ہیں۔