جاپان نے دنیا کا پہلا لکڑی سے بنایا گیا سیٹلائیٹ خلاء کے لیے روانہ کر دیا ہے، جو خلائی تحقیق میں نئے افق کی تلاش کے لیے اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
کیوٹو یونیورسٹی اور مقامی کمپنی سُومیٹومو فاریسٹری کی مشترکہ کوششوں سے تیار کردہ یہ سیٹلائیٹ “لِنگو سیٹ” اسپیس ایکس کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچے گا اور بعد ازاں تقریباً 400 کلو میٹر کی بلندی پر زمین کے مدار میں چھوڑ دیا جائے گا۔
لِنگو سیٹ کا مقصد خلاء میں قابلِ تجدید مواد کے استعمال کی آزمائش کرنا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کا سائز ہتھیلی کے برابر ہے اور اس کے ذریعے لکڑی کے مواد کے خلاء میں استعمال کے قابل ہونے کا تجربہ کیا جائے گا۔
کیوٹو یونیورسٹی کے خلانورد اور منصوبے کے شریک قائد ٹکاؤ ڈوئی نے کہا کہ “لکڑی کو استعمال کرتے ہوئے ہم مستقبل میں خلاء میں گھر بنا سکیں گے، رہ سکیں گے اور وہاں کام بھی کر سکیں گے۔” ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کا مقصد چاند اور مریخ پر درخت اگانے اور لکڑی کے گھر بنانے کے لیے ایک 50 سالہ منصوبہ تیار کرنا ہے، اور اس منصوبے کے تحت ناسا کے مستند شدہ سیٹلائیٹ کو تیار کیا گیا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ لکڑی خلاء میں استعمال کے قابل مواد ہے۔
کیوٹو یونیورسٹی کے پروفیسر کوجی مُوراتا کا کہنا تھا کہ “20ویں صدی کے آغاز میں طیارے لکڑی سے بنائے جاتے تھے، اور ہمیں یقین ہے کہ لکڑی سے بنا یہ سیٹلائیٹ بھی قابلِ استعمال ہونا چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “خلاء میں، زمین کے مقابلے میں لکڑی زیادہ پائیدار ثابت ہو گی کیونکہ وہاں نہ پانی ہے، نہ آکسیجن، جس سے لکڑی نہ خراب ہوگی اور نہ پھولے گی۔”
یہ منصوبہ نہ صرف خلائی تحقیق کے لیے ایک نیا باب کھولے گا بلکہ مستقبل میں خلاء میں رہائش اور دیگر سہولتوں کے لیے لکڑی کے استعمال کی راہ بھی ہموار کرے گا۔
کیوٹو یونیورسٹی اور مقامی کمپنی سُومیٹومو فاریسٹری کی مشترکہ کوششوں سے تیار کردہ یہ سیٹلائیٹ “لِنگو سیٹ” اسپیس ایکس کے ذریعے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچے گا اور بعد ازاں تقریباً 400 کلو میٹر کی بلندی پر زمین کے مدار میں چھوڑ دیا جائے گا۔
لِنگو سیٹ کا مقصد خلاء میں قابلِ تجدید مواد کے استعمال کی آزمائش کرنا ہے۔ اس سیٹلائیٹ کا سائز ہتھیلی کے برابر ہے اور اس کے ذریعے لکڑی کے مواد کے خلاء میں استعمال کے قابل ہونے کا تجربہ کیا جائے گا۔
کیوٹو یونیورسٹی کے خلانورد اور منصوبے کے شریک قائد ٹکاؤ ڈوئی نے کہا کہ “لکڑی کو استعمال کرتے ہوئے ہم مستقبل میں خلاء میں گھر بنا سکیں گے، رہ سکیں گے اور وہاں کام بھی کر سکیں گے۔” ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم کا مقصد چاند اور مریخ پر درخت اگانے اور لکڑی کے گھر بنانے کے لیے ایک 50 سالہ منصوبہ تیار کرنا ہے، اور اس منصوبے کے تحت ناسا کے مستند شدہ سیٹلائیٹ کو تیار کیا گیا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ لکڑی خلاء میں استعمال کے قابل مواد ہے۔
کیوٹو یونیورسٹی کے پروفیسر کوجی مُوراتا کا کہنا تھا کہ “20ویں صدی کے آغاز میں طیارے لکڑی سے بنائے جاتے تھے، اور ہمیں یقین ہے کہ لکڑی سے بنا یہ سیٹلائیٹ بھی قابلِ استعمال ہونا چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “خلاء میں، زمین کے مقابلے میں لکڑی زیادہ پائیدار ثابت ہو گی کیونکہ وہاں نہ پانی ہے، نہ آکسیجن، جس سے لکڑی نہ خراب ہوگی اور نہ پھولے گی۔”
یہ منصوبہ نہ صرف خلائی تحقیق کے لیے ایک نیا باب کھولے گا بلکہ مستقبل میں خلاء میں رہائش اور دیگر سہولتوں کے لیے لکڑی کے استعمال کی راہ بھی ہموار کرے گا۔