اسلام آباد میں حکومتی وفود کی کوششوں کے باوجود آئینی ترامیم کو غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو ملتوی کر دیا گیا ہے، اور اس بات کا اشارہ دیا گیا ہے کہ آئینی ترامیم کی منظوری میں ابھی مزید ہفتہ دس دن لگ سکتے ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے ترامیم کی منظوری نہ ہونا حکومت کی ناکامی نہیں، کیونکہ ان کے نمبرز پورے ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اصل مسئلہ نمبر گیم کا نہیں بلکہ مسودے میں کچھ نکات پر اتفاق کا ہے۔اگرنمبرپورے نہیں ہیں تو آئینی ترمیم نہیں لائی جائے گی ،آئینی ترمیم نہ آنے سے کوئی قیامت نہیں آئیگی ۔حکومت کے پاس صرف سادہ اکثریت ہے جبکہ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت چاہیے۔
ذرائع کے مطابق، مولانا فضل الرحمان نے ترامیم کے مسودے پر تفصیلی مطالعے کے لیے وقت مانگا ہے اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ترامیم کی ضرورت ہے، مگر کچھ جزیات پر مزید وقت درکار ہے۔
- آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز ہے جس کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ شمار کرنے کا عمل تبدیل کیا جائے گا۔
- آرٹیکل 17 اور آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلیاں متوقع ہیں۔
- وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے ناموں کا انتخاب قومی اسمبلی کی کمیٹی کرے گی، اور اس کے لیے 3 سینئر ترین ججز میں سے انتخاب ہوگا۔
- ججز کی عمرِ ریٹائرمنٹ 68 سال کر دی جائے گی، اور سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کے لیے تعینات ہوگا۔
- ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لیا جائے گا اور ہائی کورٹ ججز کی تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔