اسلام آباد۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی اپیل پر صحافیوں کی برادری ملک بھر میں متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، حیدرآباد اور سکھر سمیت مختلف شہروں کے پریس کلبز کے باہر مظاہرے جاری ہیں، جن میں صحافیوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ آزادی اظہارِ رائے پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں، اور جب تک بل واپس نہیں لیا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آج سینیٹ نے بھی کثرت رائے سے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو منظور کر لیا ہے۔ بل کی منظوری کے خلاف اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں، جبکہ صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔
جمعرات کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا، جہاں چیئرمین سینیٹ نے اسے قائمہ کمیٹی کو بھیجا تھا۔ اس دوران صحافتی تنظیموں نے اپنے بیانات میں بل کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا تھا۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے ای سی)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے بھی بل کے خلاف مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں ترمیمات کو مسترد کرتے ہوئے ان پر سخت تنقید کی گئی۔
کراچی میں صحافیوں، سول سوسائٹی، مزدور تنظیموں، وکلا، اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے احتجاج میں شرکت کی۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر متنازع بل کے خلاف نعرے درج تھے۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر بھی مظاہرہ ہوا، جس میں صحافیوں اور وکلا نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور بل کو غیر قانونی قرار دیا۔
اسی طرح اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب اور دیگر شہروں، بشمول کوئٹہ، فیصل آباد، اور بہاولنگر، میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ترامیم سائبر کرائم قوانین کو مزید سخت کر کے آزادی اظہارِ رائے کو محدود کرنے کی کوشش ہیں، اور حکومت کو تنقید سے بچانے کے لیے یہ قوانین لائے جا رہے ہیں۔
پیکا ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، معیارات کی نگرانی، اور غیر قانونی مواد کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے گی۔ اتھارٹی میں صحافیوں، سافٹ ویئر انجینئرز، اور وکلا کو نمائندگی دی گئی ہے۔
بل کے مطابق، جھوٹی خبریں پھیلانے والے افراد پر سخت سزا، جن میں تین سال قید یا بیس لاکھ روپے جرمانہ شامل ہے، نافذ کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، جس کے چیئرمین ہائی کورٹ کے سابق جج ہوں گے۔