اسلام آباد۔ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی کی ہم آہنگی، کفایت شعاری، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، معیار اور ماحولیاتی مالیات کی دستیابی وہ اہم پہلو ہیں جو صارفین کی پائیدار الیکٹرک وہیکلز کی طرف منتقلی کی راہ ہموار کریں گے۔ماحولیاتی مالیات کو فروغ دینے کے لئے حکومت اور نجی شعبے میں اشتراک ضروری ہے کیونکہ پاکستان اس شعبے میں دوسرے ملکوں سے پیچھے ہے۔
انہوں نے یہ بات پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام نیٹ ورک فار کلین انرجی ٹرانزیشن کے تحت سیمینار سیریز میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔سیمینار میں صنعت کے ماہرین، پالیسی سازوں اور مختلف سٹیک ہولڈرز نے پاکستان کے ای وی ایکو سسٹم اور اس کے مستقبل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔
انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے انجینئر خدا بخش نے بحث کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ای وی کے لائسنس کے اجرائ سمیت پالیسیوں کا مقصد نہ صرف صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات کو پورا کرنا ہے بلکہ مقامی سطح پر کٹس کی لوکلائزیشن کو بھی فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای وی ویلیو چین کی لوکلائزیشن سے اخراجات میں کمی آئے گی، بچت میں اضافہ ہوگا اور اہم معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ پاکستان کی پہلی آٹوموبائل ویب سائٹ پاک ویلز کے شریک بانی سنیل منج نے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے معیار اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ صارفین پر مالی بوجھ کم کرنے اور ای وی کے استعمال کو بڑھانے کےلئے رجسٹریشن، ٹیکس چھوٹ پر نظرثانی کی کی جائے۔
لمز کے ڈاکٹر نوید اشرف نے کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں مختلف چیلنجز اور مواقع موجود ہیں۔حبیب بینک لمیٹڈ کے عدنان پاشا صدیقی نے بھارت کے گرین بانڈز اور ترجیحی قرضوں سے حاصل شدہ تجربات کو پاکستان کے نقطہ نظر کے لئے رہنمائی کے طور پر پیش کیا۔
جے ایس بینک کے سید جعفر رضا نے قابل تجدید توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی چارجنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے گرین کلائمیٹ فنڈ کے ساتھ بینک کے تعاون پر روشنی ڈالی۔ایس ڈی پی آئی میں توانائی امور کے ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے 2019 کہا کہ پاکستان میں اس وقت 60 سے زیادہ ٹو اور تھری وہیلر الیکٹرک وہیکل مینوفیکچررز اور ٹو فور وہیلر مینوفیکچررز موجود ہیں لیکن ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینا ہو گی۔
آٹوموبائل مینوفیکچرنگ کے ماہر اور سابق دیوان موٹرز احمد سجیل نے دیوان موٹرز کے بھیرہ انٹرچینج پر پاکستان کے پہلے ای وی چارجنگ اسٹیشن کے قیام کو ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ چارجنگ انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے ملک میں بیشتر ای وی صرف شہری علاقوں تک محدود ہیں۔
بی وائی ڈی کے ڈائریکٹر اسٹریٹجی محمد عمر رفیق نے کہا کہ ای وی ٹیکنالوجی کو اپنانے پر مقامی سطح پر اس کے منافع اور فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ صارفین کو نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ترغیب دی جائے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سی کے ڈی پائیدار حل ہے اور یہ ای وی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیاءنے نئی انرجی وہیکل پالیسی (این ای وی پی) 2025 میں پاکستان کو اپنی جیواشم ایندھن پر مبنی گاڑیوں کی فروخت اور مینوفیکچرنگ کی مرحلہ وار بندش کی اہمیت پر زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کی صالحہ قریشی نے پاکستان میں قابل قبول ای وی ایکو سسٹم کی ترقی پر گفتگو کی۔
ایئر یونیورسٹی کے ڈاکٹر عاشق حسین نے کہا کہ مستقبل کی ای وی اختراعات کے لئے خصوصی انجینئرنگ نصاب کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ای وی کو اپنانے میں اضافہ کرنے کے لئے پالیسی ہم آہنگی اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
پینل ڈسکشن کے دوران ماہرین نے ملک بھر میں ای وی چارجنگ اسٹیشنز کے نیٹ ورک کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مزید مراعات فراہم کرے تاکہ ای وی مصنوعات کے معیار کو یکساں بنایا جا سکے۔