اسلام آباد: سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا ہے، جس میں شامل 22 شقوں کی الگ الگ منظوری دی گئی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہ ترمیم ایوان بالا میں پیش کی اور اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کی تحریک پیش کی، جسے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا، ترمیم کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور ایوان سے باہر چلے گئے۔
چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے دروازے بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے شق وار منظوری کا عمل شروع کیا۔ پہلی ترمیم کے حق میں 65 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ 4 نے مخالفت کی۔ اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی ترامیم پیش کیں، جن کی حمایت وزیر قانون نے کی اور یہ کثرت رائے سے منظور ہوگئیں۔
جمعیت علمائے اسلام نے آئین کے آرٹیکل 38 کے پیراگراف ایف میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جس میں کہا گیا کہ سودی نظام کا خاتمہ جلد از جلد کیا جائے۔ ایوان نے اس کی حمایت کی اور 65 ارکان نے حق میں ووٹ دیا جبکہ کوئی مخالفت میں ووٹ نہیں دیا۔
آرٹیکل 48 میں ترمیم کا بھی جائزہ لیا گیا، جس کے تحت وزیراعظم اور کابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کارروائی نہیں کرسکے گا۔ سینیٹ نے اس مجوزہ ترمیم کو بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا۔
اس کے علاوہ، سینیٹ میں عدلیہ سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں ترمیم بھی منظور کی گئی، جس کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے کمیشن قائم کیا جائے گا۔ یہ کمیشن 13 اراکین پر مشتمل ہوگا جس کا سربراہ چیف جسٹس ہوگا۔
کمیشن میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر جج، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، سینیئر وکیل، دو اراکین اسمبلی اور دو اراکین سینیٹ شامل ہوں گے۔
ترمیم کے مطابق، خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی، جس میں قومی اسمبلی سے 8 اور سینیٹ سے 4 اراکین ہوں گے۔ اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو تمام اراکین سینیٹ ہوں گے۔
چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل سنیارٹی لسٹ فراہم کرنے کی پابندی ہوگی۔ اگر نامزد ججوں نے انکار کیا تو پارلیمانی کمیٹی اگلے سینیئر جج کے نام پر غور کرے گی۔ اس طرح، چیف جسٹس کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔
آئینی ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کمیشن کو ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، دوہری شہریت کا حامل کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا اور ہائی کورٹ جج بننے کے لیے بھی 10 سال کا تجربہ ضروری ہوگا۔
سینیٹ نے آرٹیکل 186 اے میں ترمیم بھی منظور کی، جس کے تحت ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50 ہزار سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دی گئی۔
یہ ترامیم مختلف وجوہات کی بنا پر متفقہ طور پر منظور کی گئیں اور آئینی اصلاحات کے عمل کو شفاف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔