کرم کا علاقہ اس وقت شدید عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے، اور امن و امان کا قیام ایک ایسا خواب بن چکا ہے جو روز بروز دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف مقامی آبادی کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے باعث تشویش ہے، اور جب تک کہ کرم کے باسی اپنی ذمہ داری کا بھرپور ادراک کرتے ہوئے اس خطے کے تحفظ اور سلامتی کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتے، اس خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ ہم نے کرم جیسے علاقے میں امن بحال کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا کیا ہے۔ اس ناکامی کی وجہ سے نہ صرف ہماری عزت پر حرف آیا ہے بلکہ ہماری اجتماعی حیثیت بھی مجروح ہوئی ہے۔
کرم میں ہونے والے جرگے، عوامی نشستیں، حکومتی مذاکرات، اور مختلف فرقوں کے مابین ہونے والی گفت و شنید ایک کے بعد ایک ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ ہم ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام ہیں کہ امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ تمام قبائل کے مشران اپنے عزم کو مضبوطی سے قائم نہیں کرتے اور نوجوان نسل اپنے بڑوں کی رہنمائی میں آگے نہیں بڑھتی۔ فرقہ واریت اور فرقہ پرستی جیسی زہرناک اور تباہ کن بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وقت آ گیا ہے، اور ہمیں اپنی صدیوں پرانی قبائلی شناخت کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا تاکہ ہم ان پیچیدہ مسائل کا دیرپا اور منصفانہ حل نکال سکیں۔
یہ ضروری ہے کہ کرم کے تمام تنازعات کو قبائلی روایات، زمین کے دستاویزات اور کاغذاتِ مال کے تحت حل کیا جائے۔ ایک مستقل اور دیرپا حل کے لیے یہ ضروری ہے کہ زمین کے تنازعات کو ایک لینڈ کمیشن کے ذریعے حل کیا جائے جو کہ قبائلی روایات اور قانونی دستاویزات کی روشنی میں فیصلہ کرے۔ اس طرح کے نظام کے بغیر، ہم ان تنازعات کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے میں ناکام رہیں گے اور مزید انسانی جانوں، وسائل اور غم و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کرم کے تمام قبائل کو آج اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں گے۔ پیواڑ اور تری منگل (گیدو) کے تنازعات، کڑمان اور پاڑا چمکنی کے جھگڑے، بالیشخیل اور خار کلی کی دشمنیاں، اور بوشہرہ طوری و بنگش کی حد بندی کے مسائل کو قبائلی نظام کے دائرے میں حل کیے بغیر ان کا کوئی مستقل حل ممکن نہیں۔ ان تنازعات کو فرقہ واریت کی عینک سے دیکھنے کے بجائے، انہیں قبائلی نظام کی روایات اور اصولوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے ان مسائل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تو یہ مسائل مزید بگڑ جائیں گے اور ہم اپنے مقصد سے دور ہو جائیں گے۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ کرم کے مشران، علمائے کرام، سماجی کارکنان، اور نوجوان ایک ہی مقصد کے لیے متحد ہو جائیں، اور وہ مقصد کرم کی سلامتی اور حفاظت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی ذمہ داری کو نظرانداز کیا، تو یہ خطہ، جو کبھی امن اور محبت کا گہوارہ تھا، نفرت اور تباہی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ کرم کی موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ذاتی، قبائلی، اور فرقہ وارانہ مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مضبوط اور متحد قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو بھی اس بات کی ترغیب دینی ہوگی کہ وہ اپنے مشران کے تجربات اور بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔
کرم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں ان قبائلی تنازعات کو قبائلی نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنا ہوگا، اور ان کو فرقہ وارانہ جھگڑوں کا رنگ دینے سے گریز کرنا ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ کرم کے تمام قبائل اپنے باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر امن اور مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ اگر ہم نے اس موقع کو ضائع کر دیا، تو نہ صرف کرم بلکہ پورا ملک اس کی بھاری قیمت چکائے گا۔
کرم کے روشن مستقبل اور اس کے باسیوں کے محفوظ اور پرامن زندگی کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہمیں آج ہی اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس لمحے کو ضائع کر دیا، تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے صرف تباہی اور بربادی کا ورثہ چھوڑ جائیں گے۔ کرم کے لوگوں کی موجودہ حالت، خاص طور پر پاراچنار کے لوگ، شدید ذہنی دباؤ اور خوف کے عالم میں ہیں۔ اگر ہم نے ان مسائل کا مستقل اور دیرپا حل نہ نکالا تو ہمارا گھر، ہماری عورتیں، اور ہمارے بچے اس تشدد کا سامنا دہائیوں اور صدیوں تک کرتے رہیں گے، اور ہم مسلسل انسانی جانوں، وسائل اور امن کے خواب کو بکھرتا دیکھتے رہیں گے۔ ہمیں ان مسائل کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ ہم مزید جانی اور مالی نقصان، غم اور پریشانی سے بچ سکیں۔