اسلام آباد ۔مرنے کے بعد جسم سے روح کے نکلنے سے متعلق سائنسی تحقیق نے حیرت انگیز حقیقتوں کو سامنے لایا ہے۔
موت برحق ہے اور جسم سے روح نکلنے جانے سے متعلق بھی سب ہی کو معلوم ہے تاہم یہ عمل کس طرح ہوتا ہے اس کا خالق حقیقی کے علاوہ کسی کو علم نہیں۔
تاہم اس حوالے سے سائنس نے مختلف تحقیقات کی ہیں اور اس بار ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔
مختلف مذاہب اور فلسفوں میں ”روح“ کا تصور اہمیت رکھتا ہے اور لوگوں نے ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ مرنے کے بعد ہماری کیا حالت ہوتی ہے؟
کافی عرصے تک مین اسٹریم سائنس نے روح کے نکلنے کے عمل پر بحث سے گریز کیا تھا، لیکن اب ایک امریکی سائنسدان نے اس میں نئی تبدیلی کا ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر اسٹیورٹ ہیمروف، جو ایک معروف اینستھیزیولوجسٹ اور پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سائنسی ثبوت ہیں جو بتاتے ہیں کہ شعور یا جسے کچھ لوگ روح سمجھتے ہیں، مرنے کے بعد جسم سے نکل جاتی ہے۔
انہوں نے سات شدید بیمار مریضوں پر کی گئی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان مریضوں کے سروں پر سینسر لگائے گئے تھے اور ان کی زندگی کی حمایت کو ہٹانے سے پہلے یہ مشاہدہ کیا گیا۔ جب ان کے دل رک گئے اور خون کا دباؤ صفر تک پہنچا تو ایک حیرت انگیز بات سامنے آئی۔ یہ کہ دماغ میں اچانک توانائی کا اخراج ہوا۔
ڈاکٹر ہیمروف نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ مریضوں کی دماغی سرگرمیاں رک گئیں، لیکن پھر ایک آخری دفعہ توانائی کا پھٹنا دیکھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ کچھ ہو رہا تھا حالانکہ کوئی معمولی عمل نہیں ہو رہا تھا۔
ہیمروف نے بتایا کہ دماغ میں جو پراسرار سرگرمی دیکھی گئی، اسے گاما سنکرونی (Gamma Synchrony) کہا جاتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتی ہے جب ہم جاگتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ لیکن وہ مریض جو مردہ قرار دیے گئے تھے، ان میں یہ عمل 90 سیکنڈ تک جاری رہا۔
ڈاکٹر ہیمروف کا خیال تھا کہ یہ عمل صرف ایک اضطراب نہیں بلکہ یہ وہ عمل ہو سکتا ہے جس میں روح جسم سے نکلتی ہے۔
اس کے علاوہ، ڈاکٹر ہیمروف نے یہ بھی کہا کہ شعور ایک کم توانائی والے اور گہرائی میں سرایت کرنے والے عمل کی صورت میں ہوتا ہے، جو دماغی خلیات میں ممکنہ طور پر کوانٹم سطح پر ہوتا ہے۔ اس خیال کو کوانٹم دماغی مفروضہ کہا جاتا ہے، اور یہ تجویز کرتا ہے کہ ہماری آگاہی دماغی خلیات کے درمیان چھوٹی سرگرمیوں کے ذریعے جاری رہ سکتی ہے، جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہیں۔