ہمارے نظام شمسی کے دور دراز خطے میں ایک نئے سیارے کی موجودگی کے تصور نے ماہرین فلکیات کو عرصے سے متوجہ کر رکھا ہے۔
ایک وقت تھا جب سیارہ پلوٹو کو نظام شمسی کا نوواں سیارہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن 2006 میں اسے “بونا سیارہ” کی حیثیت دے دی گئی، جس کے بعد ہمارے فلکیاتی نظام میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا۔
حالیہ مشاہدات سے یہ اشارے ملے ہیں کہ ایک پراسرار جسم، جسے “سیارہ 9” یا “سیارہ ایکس” کہا جاتا ہے، ممکنہ طور پر موجود ہے اور دریافت کا منتظر ہے۔ اس کی دریافت ہمارے نظام شمسی کے بارے میں موجودہ تصورات کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔
ماہرین فلکیات نے نیپچون سے بھی آگے، کوئپر بیلٹ کہلانے والے خطے میں موجود بڑے اجسام کی غیر معمولی حرکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ اجسام سورج کے گرد نہایت عجیب و غریب اور جھکے ہوئے مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان حرکات کی وجہ کسی بڑے اور غیر مرئی سیارے کی کشش ثقل ہوسکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سیارہ زمین سے کئی گنا بڑا لیکن نیپچون سے چھوٹا ہوسکتا ہے۔
یہ پراسرار سیارہ ممکنہ طور پر سورج سے اتنی دوری پر ہے کہ موجودہ آلات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا پتہ لگانا نہایت مشکل ہے، کیونکہ یہ زمین سے سینکڑوں گنا زیادہ فاصلے پر ہو سکتا ہے۔
اس پوشیدہ سیارے کی تلاش سائنسدانوں کے لیے ایک اہم معمہ بنی ہوئی ہے، جس کا حل ہمارے نظام شمسی کے بارے میں گہرے رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب سیارہ پلوٹو کو نظام شمسی کا نوواں سیارہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن 2006 میں اسے “بونا سیارہ” کی حیثیت دے دی گئی، جس کے بعد ہمارے فلکیاتی نظام میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا۔
حالیہ مشاہدات سے یہ اشارے ملے ہیں کہ ایک پراسرار جسم، جسے “سیارہ 9” یا “سیارہ ایکس” کہا جاتا ہے، ممکنہ طور پر موجود ہے اور دریافت کا منتظر ہے۔ اس کی دریافت ہمارے نظام شمسی کے بارے میں موجودہ تصورات کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔
ماہرین فلکیات نے نیپچون سے بھی آگے، کوئپر بیلٹ کہلانے والے خطے میں موجود بڑے اجسام کی غیر معمولی حرکات کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ اجسام سورج کے گرد نہایت عجیب و غریب اور جھکے ہوئے مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان حرکات کی وجہ کسی بڑے اور غیر مرئی سیارے کی کشش ثقل ہوسکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سیارہ زمین سے کئی گنا بڑا لیکن نیپچون سے چھوٹا ہوسکتا ہے۔
یہ پراسرار سیارہ ممکنہ طور پر سورج سے اتنی دوری پر ہے کہ موجودہ آلات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا پتہ لگانا نہایت مشکل ہے، کیونکہ یہ زمین سے سینکڑوں گنا زیادہ فاصلے پر ہو سکتا ہے۔
اس پوشیدہ سیارے کی تلاش سائنسدانوں کے لیے ایک اہم معمہ بنی ہوئی ہے، جس کا حل ہمارے نظام شمسی کے بارے میں گہرے رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔