اسلام آباد۔ ماہرین نے زور دیا ہے کہ تمباکو کی صنعت کار عوامی رائے کو متاثر کرنے کیلئے گمراہ کن ہتھکنڈے اپنا رہی ہے جو صحتِ عامہ کی پیش رفت میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تمباکو صنعت کی مداخلت کے خلاف زیادہ سخت قوانین کا نفاذ کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاںپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) نے” تمباکو صنعت کی مداخلت اور نگرانی“کے موضوع پر اعلیٰ سطح کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار میں مقامی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی۔ سیمینار کا مقصد عوام میں ابھرتے ہوئے تمباکو مصنوعات کے حوالے سے گمراہ کن بیانیے کی حقیقت آشکار کرنا تھا۔
ایس ڈی پی آئی کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ سید علی واصف نقوی نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ تمباکو صنعت طویل عرصے سے عالمی صحتِ عامہ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ پاکستان میں تمباکو کے مضر اثرات کے خلاف جدوجہد مزید پیچیدہ ہو گئی ہے، کیونکہ تمباکو کی صعت مختلف حربے استعمال کر کے عوامی رائے کو متاثر کررہی ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ہیلتھ سینٹر کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر وسیم افتخار جنجوعہ نے اپنی پریزنٹیشن میں بتایا کہ ساو¿تھ ایسٹ ایشیا تمباکو کنٹرول الائنس کے ”تمباکو صنعت مداخلت انڈیکس“ ظاہرکرتے ہیں کہ صنعت نے قومی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوششیںکر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مسافروں کو ڈیوٹی فری شاپس سے تمباکو اور ای سگریٹس کی درآمد کی اجازت دینا ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس حوالے سے مناسب قواعد و ضوابط کا فقدان ہے۔
ایس ڈی پی آئی کی تحقیق کے مطابق، تمباکو صنعت نے ریڈیو پاکستان جیسے ریاستی اداروں کو اپنے حق میں پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا۔ ادارے نے تقریباً 20 گھنٹے کے ریڈیو پروگرامز کا جائزہ لے کر صنعت کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ڈاکٹر جنجوعہ نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی نے وزارت صحت اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن سمیت حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ان حربوں کو بے نقاب کیا ہے۔یونیورسٹی آف باتھ کی ڈاکٹر سوفی برازنل نے کہا کہ تمباکو صنعت کی مداخلت کو پہچاننا نہایت ضروری ہے،ان حربوں کی شناخت ہی ہمارا واحد ہتھیار ہے۔
ڈاکٹر ٹریسی جانسٹن نے کہا کہ صنعت کی معاشی ترقی کے دعوے گمراہ کن ہیں اور ان کا مقصد صرف صحت کے مسائل کو چھپانا ہے۔ایس ڈی پی آئی کی ماہر ثانیہ علی خان نے کہا کہ صنعت کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر) کے ذریعے اپنی نقصان دہ سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ 274 افراد تمباکو کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ 1200 نوجوان نشے کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیمینار کے اختتام پر ماہرین نے زور دیا کہ تمباکو صنعت کی مداخلت کے خلاف زیادہ سخت قوانین کی ضرورت ہے۔