ایم آر آئی تصاویر میں دماغی ٹیومر کی شناخت میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیت میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ جان ہوپکنز میڈیسن کی ایک نئی تحقیق کے مطابق، مصنوعی ذہانت کے ماڈلز اب 150 سے زیادہ اقسام کے دماغی ٹیومرز کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے سبھی ٹیومرز دماغی کینسر نہیں ہیں، لیکن وہ دماغ کے اہم حصوں میں موجود ہونے کی وجہ سے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ کچھ کیسز میں، ایک معمولی سا ٹیومر بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق، اس برس دماغ اور اعصابی نظام کے کینسر سے تقریباً 19 ہزار افراد کی موت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گزشتہ سال بھی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے ٹیومرز سے تقریباً اتنی ہی اموات کا تخمینہ تھا۔
تحقیق میں، سائنسدانوں نے کنوولوشنل نیورل نیٹ ورکس (جو مشین لرننگ الگورڈمز کی ایک قسم ہیں اور مصنوعی ذہانت کا حصہ ہیں) کو تربیت دی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ایم آر آئی تصاویر میں کون سی صحت مند دماغ کی عکاسی کرتی ہیں اور کون سی کینسر سے متاثر دماغ کی۔ یہ ماڈل نہ صرف کینسر کے متاثرہ حصوں کو پہچاننے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں، بلکہ یہ اس بات کا تعین کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں کہ ٹیومر کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے۔
تحقیق کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے نیورل نیٹ ورک نے دماغ کی معمول کی تصاویر اور کینسر سے متاثرہ دماغ کے درمیان فرق کو نمایاں طور پر بہتر طریقے سے شناخت کیا، جس سے اس ٹیکنالوجی کی تشخیص کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ پیشرفت دماغی کینسر کی جلد تشخیص اور اس کے علاج میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب ٹیومر دماغ کے اہم حصوں میں موجود ہوں جہاں ان کی شناخت مشکل ہو۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مریضوں کی زندگی بچانے اور علاج کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی توقع کی جا رہی ہے۔
امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق، اس برس دماغ اور اعصابی نظام کے کینسر سے تقریباً 19 ہزار افراد کی موت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گزشتہ سال بھی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے ٹیومرز سے تقریباً اتنی ہی اموات کا تخمینہ تھا۔
تحقیق میں، سائنسدانوں نے کنوولوشنل نیورل نیٹ ورکس (جو مشین لرننگ الگورڈمز کی ایک قسم ہیں اور مصنوعی ذہانت کا حصہ ہیں) کو تربیت دی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ایم آر آئی تصاویر میں کون سی صحت مند دماغ کی عکاسی کرتی ہیں اور کون سی کینسر سے متاثر دماغ کی۔ یہ ماڈل نہ صرف کینسر کے متاثرہ حصوں کو پہچاننے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں، بلکہ یہ اس بات کا تعین کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں کہ ٹیومر کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے۔
تحقیق کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے نیورل نیٹ ورک نے دماغ کی معمول کی تصاویر اور کینسر سے متاثرہ دماغ کے درمیان فرق کو نمایاں طور پر بہتر طریقے سے شناخت کیا، جس سے اس ٹیکنالوجی کی تشخیص کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ پیشرفت دماغی کینسر کی جلد تشخیص اور اس کے علاج میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب ٹیومر دماغ کے اہم حصوں میں موجود ہوں جہاں ان کی شناخت مشکل ہو۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مریضوں کی زندگی بچانے اور علاج کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی توقع کی جا رہی ہے۔