ایک حیران کن واقعے میں ایک مغوی چینی، جو 34 سال بعد اپنے خاندان سے ملا تھا، نے چند ہی ماہ بعد اُن سے مکمل لاتعلق ہو کر انہیں چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
37 سالہ یو باؤ کو صوبہ سیچوان میں اپنے دادا دادی کے گھر سے اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ صرف دو سال کا تھا۔ انسانی اسمگلروں نے اُسے وسطی چین کے صوبے ہینان کے ایک امیر خاندان کو فروخت کر دیا تھا۔ تاہم، جس خاندان نے یو باؤ کو خریدا وہ اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے اور اکثر اُسے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ گھریلو تشدد سے تنگ آ کر یو باؤ نے خانہ بدوشی اختیار کی، اور 19 سال کی عمر میں کام کے لیے شنگھائی اور بیجنگ کا سفر کیا، جہاں وہ آخرکار دارالحکومت میں ڈیلیوری رائڈر کے طور پر آباد ہو گئے۔
یو باؤ نے چینی اخبار Dahe Daily کو بتایا کہ اس نے ہمیشہ اپنے پیدائشی خاندان کی تلاش جاری رکھی۔ ایک دن پولیس نے انہیں اطلاع دی کہ ان کے ڈی این اے میچ کر گئے ہیں اور اُن کی والدہ کا پتا مل گیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندان سے ملنے کے لیے ان کے پاس پہنچے۔
لیکن جب یو باؤ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے گئے تو انھیں پتہ چلا کہ ان کے والدین طلاق لے چکے ہیں اور ان کے بھائی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس کے والد نے اپنی فیملی کو مکمل طور پر ترک کر دیا تھا۔
یو باؤ نے اپنی طلاق یافتہ ماں اور دو چھوٹے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے آن لائن لائیو ای کامرس اسٹریمنگ شروع کی۔ اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی جلد ہی منافع بخش ثابت ہوئی، اور یو نے خاندان کے دباؤ میں آ کر اپنی کمائی کا 60 فیصد حصہ انہیں دینا شروع کیا۔
تاہم، اس کے بعد مسائل بڑھنا شروع ہوئے۔ یو باؤ اپنی کمائی کا مناسب حصہ وصول نہ کر سکا، حالانکہ وہ خاندان کو رقم کا صحیح حصہ دے رہا تھا۔ اس کے بھائیوں نے اُسے بتایا کہ وہ اُسے خاندان میں قبول کر کے “احسان” کر رہے ہیں، اور ایک بھائی نے تو اُسے مارنے کی دھمکی بھی دی۔
یو باؤ کو سب سے زیادہ مایوسی اس وقت ہوئی جب اُس کی ماں نے اپنے دوسرے دو بیٹوں کا ساتھ دیا اور اُسے پیسوں کے لیے استعمال کرتی رہی۔ ان حالات سے دلبرداشتہ ہو کر یو باؤ نے اپنی مرضی سے اپنی فیملی کو چھوڑنے اور دوبارہ اپنی زندگی خود جینے کا فیصلہ کیا۔
یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خاندان سے دوبارہ جڑنے کا عمل ہمیشہ اتنا آسان نہیں ہوتا، اور جب محبت، تعاون اور احترام کی کمی ہو، تو انسان اپنے راستے خود منتخب کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔