ناسا اپنے تاریخی مشن “ڈریگن فلائی” کے ذریعے زحل کے چاند ٹائٹن پر زندگی کے آثار کی تلاش کے لیے ڈرون بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ مشن زمین سے تقریباً 74 کروڑ 50 لاکھ میل دور موجود ٹائٹن چاند کا معائنہ کرے گا، جو زحل کا سب سے بڑا چاند ہے اور نظامِ شمسی کا دوسرا سب سے بڑا چاند بھی ہے۔
ناسا نے اس مشن کا اعلان 2019 میں کیا تھا اور اب اس منصوبے کو 2028 میں عملی طور پر شروع کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اسپیس کرافٹ “ڈریگن فلائی” جولائی 2028 میں لانچ ہو گا اور 2034 میں ٹائٹن تک پہنچے گا۔ اس مشن کا مقصد اس چاند کی سطح اور ماحول کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہے تاکہ وہاں زندگی کی موجودگی یا اس کی ممکنہ حالت کا جائزہ لیا جا سکے۔
ناسا کے سابق ایڈمنسٹریٹر جم برائڈنسٹائن کا کہنا تھا کہ یہ مشن ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے کائنات میں زندگی کے بارے میں ہماری معلومات میں انقلاب آ سکتا ہے۔ ٹائٹن کی فضاء زمین کی طرح نائٹروجن پر مبنی ہے، اور اس کی سطح پر مائع میتھین اور ایٹمسفیرک گیسز کی موجودگی اس چاند کو ایک پُراسرار “بحری دنیا” بناتی ہے، جو کہ زندگی کے لیے ممکنہ طور پر موزوں ہوسکتی ہے۔
“ڈریگن فلائی” کی کامیاب لانچ اور ٹائٹن تک پہنچنا ناسا کے لیے ایک اور شاندار کامیابی ثابت ہو سکتا ہے، جو خلائی تحقیقات میں مزید نئے امکانات کا دروازہ کھولے گا۔
ناسا نے اس مشن کا اعلان 2019 میں کیا تھا اور اب اس منصوبے کو 2028 میں عملی طور پر شروع کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اسپیس کرافٹ “ڈریگن فلائی” جولائی 2028 میں لانچ ہو گا اور 2034 میں ٹائٹن تک پہنچے گا۔ اس مشن کا مقصد اس چاند کی سطح اور ماحول کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہے تاکہ وہاں زندگی کی موجودگی یا اس کی ممکنہ حالت کا جائزہ لیا جا سکے۔
ناسا کے سابق ایڈمنسٹریٹر جم برائڈنسٹائن کا کہنا تھا کہ یہ مشن ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے کائنات میں زندگی کے بارے میں ہماری معلومات میں انقلاب آ سکتا ہے۔ ٹائٹن کی فضاء زمین کی طرح نائٹروجن پر مبنی ہے، اور اس کی سطح پر مائع میتھین اور ایٹمسفیرک گیسز کی موجودگی اس چاند کو ایک پُراسرار “بحری دنیا” بناتی ہے، جو کہ زندگی کے لیے ممکنہ طور پر موزوں ہوسکتی ہے۔
“ڈریگن فلائی” کی کامیاب لانچ اور ٹائٹن تک پہنچنا ناسا کے لیے ایک اور شاندار کامیابی ثابت ہو سکتا ہے، جو خلائی تحقیقات میں مزید نئے امکانات کا دروازہ کھولے گا۔