سابق فحش فلم اداکارہ میا خلیفہ نے اپنے حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ انھیں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کے بعد فحش فلم انڈسٹری چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
میا، جو لبنانی نژاد امریکی ہیں، نے 21 سال کی عمر میں مسلم عرب خاتون کے حلیے میں ایک فحش فلم میں کام کر کے شہرت حاصل کی تھی۔ اپنے انٹرویو میں انھوں نے اس تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکتوبر 2014 میں بالغوں کی فلمی صنعت میں داخل ہوئیں، اور ان پر حجاب پہنے عرب خاتون کا کردار ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا، “فلمساز کا مقصد اس حقیقت سے فائدہ اٹھانا تھا کہ میں عربی ہوں اور عربی زبان بولتی ہوں۔ میں نے اس تجربے کے لیے حامی بھر لی، لیکن وہ فلم چند گھنٹوں میں ہی وائرل ہوگئی، جس کے بعد مجھے داعش کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔”
میا خلیفہ نے یہ بھی بتایا کہ اس صورتحال نے ان کی زندگی کو بہت متاثر کیا اور وہ جلد ہی اس انڈسٹری سے دور ہو گئیں۔
میا خلیفہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بیس یا اکیس سال کی عمر میں ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے اور ناپختگی کے دور سے گزرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان کے ساتھ یہ تجربہ کچھ زیادہ ہی شدید ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت انھیں احساس ہوا کہ حالات بہتر ہونے کی امید نہیں ہے، جس کے باعث انہوں نے سوشل میڈیا کو دوبارہ جوائن کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بااثر شخصیت بننے کی کوشش کرنے کا ارادہ کیا۔
میا نے اپنی زندگی کے اس سیاہ دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کی حجاب میں فحش فلم وائرل ہوئی تو انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کے بدترین دن تھے، کیونکہ داعش کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ کئی دن تک ہوٹل کے کمرے میں مقید رہیں اور باہر نکلنے سے خوفزدہ تھیں۔
انہوں نے اپنی بے بسی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا، “آپ ہوٹل کے کمرے میں تنہا ہوں اور دنیا بھر سے لوگ آپ کا جنسی استحصال کرنے اور قتل کی دھمکیاں دے رہے ہوں، تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟ خاص طور پر جب آپ کی فیملی کی سپورٹ بھی نہ ہو۔”
یہ تجربات میا خلیفہ کے لیے نہایت مشکل وقت تھے، جس نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
میا خلیفہ نے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے فحش فلم انڈسٹری کے بارے میں بات کرنے سے تین سال تک خود کو الگ رکھا۔ وہ اس وقت ماہر نفسیات کی تھراپی میں تھیں، جس کے بعد ہی انہوں نے اس موضوع پر گفتگو شروع کی۔
سابق اداکارہ نے انکشاف کیا کہ ان کے کیریئر سے انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی انہوں نے کوئی عیش و آرام کی زندگی گزاری۔ ان کا کہنا تھا کہ “دنیا سمجھتی ہے کہ میں فحش فلموں میں آنے کے بعد لگژری زندگی گزارتی رہی ہوں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ میں ایک ایسے اپارٹمنٹ میں رہتی رہی ہوں جو کاکروچوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ میری زندگی کا بدترین وقت تھا۔”
میا خلیفہ نے اس بات کی وضاحت کی کہ فحش فلمیں بنانے والے ہدایت کار نوجوان لڑکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا جسمانی و مالی استحصال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیاں اکثر کم معاوضے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میا خلیفہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انہوں نے فحش فلموں میں کام کر کے صرف 12 ہزار ڈالر کمائے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فحش فلمیں بنانے والے ہدایت کار نوجوان لڑکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا جسمانی و مالی استحصال کرتے ہیں۔ وہ اکثر ایسے معاہدوں پر دستخط کروا لیتے ہیں کہ لڑکیاں انتہائی کم معاوضے پر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
میا نے یہ بھی وضاحت کی کہ وہ اب دوبارہ گمنامی کی زندگی میں واپس نہیں جا سکتیں، اس لیے انہوں نے “آونلی فینز” میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اس وقت سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے ایکس، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر ایک انفلوئنسر کی حیثیت سے سرگرم ہیں، جہاں وہ لائف اسٹائل، خوراک، اور سیاست سے متعلقہ مواد شیئر کرتی ہیں۔
میا، جو لبنانی نژاد امریکی ہیں، نے 21 سال کی عمر میں مسلم عرب خاتون کے حلیے میں ایک فحش فلم میں کام کر کے شہرت حاصل کی تھی۔ اپنے انٹرویو میں انھوں نے اس تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اکتوبر 2014 میں بالغوں کی فلمی صنعت میں داخل ہوئیں، اور ان پر حجاب پہنے عرب خاتون کا کردار ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا، “فلمساز کا مقصد اس حقیقت سے فائدہ اٹھانا تھا کہ میں عربی ہوں اور عربی زبان بولتی ہوں۔ میں نے اس تجربے کے لیے حامی بھر لی، لیکن وہ فلم چند گھنٹوں میں ہی وائرل ہوگئی، جس کے بعد مجھے داعش کی طرف سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔”
میا خلیفہ نے یہ بھی بتایا کہ اس صورتحال نے ان کی زندگی کو بہت متاثر کیا اور وہ جلد ہی اس انڈسٹری سے دور ہو گئیں۔
میا خلیفہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بیس یا اکیس سال کی عمر میں ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے اور ناپختگی کے دور سے گزرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان کے ساتھ یہ تجربہ کچھ زیادہ ہی شدید ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت انھیں احساس ہوا کہ حالات بہتر ہونے کی امید نہیں ہے، جس کے باعث انہوں نے سوشل میڈیا کو دوبارہ جوائن کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بااثر شخصیت بننے کی کوشش کرنے کا ارادہ کیا۔
میا نے اپنی زندگی کے اس سیاہ دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب ان کی حجاب میں فحش فلم وائرل ہوئی تو انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کے بدترین دن تھے، کیونکہ داعش کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ کئی دن تک ہوٹل کے کمرے میں مقید رہیں اور باہر نکلنے سے خوفزدہ تھیں۔
انہوں نے اپنی بے بسی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا، “آپ ہوٹل کے کمرے میں تنہا ہوں اور دنیا بھر سے لوگ آپ کا جنسی استحصال کرنے اور قتل کی دھمکیاں دے رہے ہوں، تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟ خاص طور پر جب آپ کی فیملی کی سپورٹ بھی نہ ہو۔”
یہ تجربات میا خلیفہ کے لیے نہایت مشکل وقت تھے، جس نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
میا خلیفہ نے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے فحش فلم انڈسٹری کے بارے میں بات کرنے سے تین سال تک خود کو الگ رکھا۔ وہ اس وقت ماہر نفسیات کی تھراپی میں تھیں، جس کے بعد ہی انہوں نے اس موضوع پر گفتگو شروع کی۔
سابق اداکارہ نے انکشاف کیا کہ ان کے کیریئر سے انہیں کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی انہوں نے کوئی عیش و آرام کی زندگی گزاری۔ ان کا کہنا تھا کہ “دنیا سمجھتی ہے کہ میں فحش فلموں میں آنے کے بعد لگژری زندگی گزارتی رہی ہوں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ میں ایک ایسے اپارٹمنٹ میں رہتی رہی ہوں جو کاکروچوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ میری زندگی کا بدترین وقت تھا۔”
میا خلیفہ نے اس بات کی وضاحت کی کہ فحش فلمیں بنانے والے ہدایت کار نوجوان لڑکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا جسمانی و مالی استحصال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیاں اکثر کم معاوضے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میا خلیفہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انہوں نے فحش فلموں میں کام کر کے صرف 12 ہزار ڈالر کمائے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فحش فلمیں بنانے والے ہدایت کار نوجوان لڑکیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا جسمانی و مالی استحصال کرتے ہیں۔ وہ اکثر ایسے معاہدوں پر دستخط کروا لیتے ہیں کہ لڑکیاں انتہائی کم معاوضے پر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
میا نے یہ بھی وضاحت کی کہ وہ اب دوبارہ گمنامی کی زندگی میں واپس نہیں جا سکتیں، اس لیے انہوں نے “آونلی فینز” میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اس وقت سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے ایکس، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر ایک انفلوئنسر کی حیثیت سے سرگرم ہیں، جہاں وہ لائف اسٹائل، خوراک، اور سیاست سے متعلقہ مواد شیئر کرتی ہیں۔