اسلام آباد ۔ ملک کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ارکان کے سخت سوالات پر انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) اسلام آباد سید علی ناصر رضوی غصے میں آگئے اور اس دوران تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ داخلہ کمیٹی کے رکن عبدالقادرقادر پٹیل نے تلخی کا ذمہ دار آئی جی اسلام آباد کوقرار دے دیا اورکہا کہ ارکان کی جانب سے سوالات اٹھانے پر انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد سید علی ناصر رضوی کی طرف سے تلخی ہوئی، ان کے پاس سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ سوموار کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین راجا خرم نواز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، کمیٹی نے اسلام آباد پولیس کی کارکردگی کا ڈیٹا طلب کیا، آئی جی پولیس اسلام آباد نے کارکردگی رپورٹ پیش کی۔
اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رکن قادر پٹیل نے پوچھا سزا دلوانے کے اعداد و شمار کیا ہیں؟ چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا ڈاکوؤں کو 2 چار ماہ سے زیادہ سزا نہیں ہوتی۔آئی جی اسلام آباد نے بتایا پولیس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر ہونے والی یلغار اور حملوں کو روکنے میں لگی رہی، اس پر چیئرمین کمیٹی نے یلغار کا لفظ کہنے سے روکا تو آئی جی غصے میں آگئے اور کہا کیا وہ سوالوں کے جواب نہ دیں؟
الجھنے پر چیئرمین کمیٹی بولے یونیفارم نہ پہنا ہوتا تو اجلاس سے اٹھا کر باہر بھیج دیتا لیکن وردی پر لگے جھنڈے کی عزت کی پروا ہے۔ راجا خرم نواز نے کہا کہ لڑائی کیوں کر رہے ہیں؟ اس وقت تھانوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے، آئی جی نے کہا کیا اس بیان کوآبزرویشن سمجھا جائے؟ چیئرمین کمیٹی نے جواب دیا بالکل سمجھا جائے، یہ رویہ شرم کی بات ہے، سچ یہ ہے کہ اسلام آباد میں جرائم کے کئی واقعات کی ایف آئی آر تک نہیں ہوتی۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں داخلہ کمیٹی کے رکن قادر پٹیل نے کہا کہ اسلام آباد کی امن وامان کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی جو تسلی بجش نہیں تھی، ارکان کی جانب سے سوالات اٹھانے پر آئی جی کی طرف سے تلخی ہوئی، تسلی بخش جوابات دینا سرکاری حکام کی ذمے داری ہے۔ آئی جی کے پاس ملزمان کو سزا ملنے سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا، افسران اپنی کارکردگی بتائیں گے تو اس پر سوالات بھی ہوں گے، اسلام آباد پولیس کی طرف سے صرف مقدمات کے اندراج اور پکڑ دھکڑ بچوں کا کھیل ہے۔قادر پٹیل نے کہا کہ آئی جی کے اس جواب پر کہ کنوکشن ریٹ عدالتوں کو پتا ہو گا، تعجب ہوا، گرفتاریوں کے ریکارڈ بتانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ ارکان کی جانب سے ڈی جی پاسپورٹ سے بھی سوالات کئے گئے، پاسپورٹ کے اجرا میں تاخیر پر سوال کیا گیا کہ یہ ڈی جی کے خلاف کوئی سازش تو نہیں، بڑی تعداد میں پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیر بڑھ گئی ہے۔ پاسپورٹ کے معاملے پر 15 دسمبر تک التوا ختم کر ے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، پاسپورٹ مشینوں پر 3 ارب کے اخراجات کی تفصیلات دینا پڑیں گی۔
قادر پٹیل نے کہا کہ آئی جی اور ڈی جی پاسپورٹ کو ہمارے سوالات کی توقع نہیں تھی، وہ تسلی بخش جوابات نہیں دے سکے، سرکاری حکام کو کمیٹیوں کے سامنے تیاری سے آنا چاہیے۔