مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جبری انتخابات میں مودی سرکار تمام ہتھکنڈے اور سرکاری مشینری استعمال کرنے کے باوجود شدید ناکامی کا سامنا کر گئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، 18 ستمبر سے یکم اکتوبر کے درمیان 3 مراحل میں مکمل ہونے والے الیکشن کے نتائج آج جاری کیے گئے۔ ووٹرز کی بڑی تعداد نے اس الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملی ہیں، جسے ووٹرز کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف ’’بیلیٹ احتجاج‘‘ سمجھا جا رہا ہے۔
اس کے مقابلے میں، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے 90 میں سے 51 نشستیں حاصل کیں اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئے۔ اس اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے صرف 2 نشستیں حاصل کیں، جس سے اگر وہ حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو ان کی مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ مودی سرکار نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے کالے قانون کا استعمال کیا اور اسے لداغ سے جدا کر کے وفاق میں ضم کر دیا۔ اس غیر آئینی اقدام کے خلاف مسلم رہنما عدالت میں گئے، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ اس کے نتیجے میں، حالیہ انتخابات میں کشمیری عوام کی جانب سے حریت جماعت کی اپیل کے تحت ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، 18 ستمبر سے یکم اکتوبر کے درمیان 3 مراحل میں مکمل ہونے والے الیکشن کے نتائج آج جاری کیے گئے۔ ووٹرز کی بڑی تعداد نے اس الیکشن کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 28 نشستیں ملی ہیں، جسے ووٹرز کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف ’’بیلیٹ احتجاج‘‘ سمجھا جا رہا ہے۔
اس کے مقابلے میں، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے 90 میں سے 51 نشستیں حاصل کیں اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئے۔ اس اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کو ملیں۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے صرف 2 نشستیں حاصل کیں، جس سے اگر وہ حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو ان کی مجموعی نشستوں کی تعداد 53 ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ مودی سرکار نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے کالے قانون کا استعمال کیا اور اسے لداغ سے جدا کر کے وفاق میں ضم کر دیا۔ اس غیر آئینی اقدام کے خلاف مسلم رہنما عدالت میں گئے، لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ اس کے نتیجے میں، حالیہ انتخابات میں کشمیری عوام کی جانب سے حریت جماعت کی اپیل کے تحت ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔