اسلام آباد ۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کا سب سے اہم اور خوش آئند پہلو عدلیہ کا احتساب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں کسی شاہی دربار کی مانند نہیں بلکہ آئینی ادارے ہیں، اگر جج صاحبان مقدمات سننے سے قاصر ہیں تو انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اسلام آباد میں وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق اور موجودہ چیف جسٹس کے شکر گزار ہیں جنہوں نے وکلاء کے حوالے سے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کیے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وکلاء کے احتجاج کو انسداد دہشت گردی قانون سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟ ایسی مثال تو مشرف دور میں بھی نہیں ملی۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ کبھی کسی بار کونسل سے خفیہ حمایت کے طلبگار نہیں رہے اور ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو وکلاء تنظیموں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حکومت اور وکلاء کے درمیان جو معاہدے ہوئے ہیں، ان میں کوئی دھوکہ دہی نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل کونسل کے حوالے سے تجویز ان کی اپنی نہیں تھی۔
وزیر قانون نے 26ویں آئینی ترمیم کا دوبارہ ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم عدلیہ کو بھی احتساب کے دائرے میں لاتی ہے، اور عدلیہ کا وقار اسی میں ہے کہ وہ خود کو آئینی حدود میں رکھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچستان اور سندھ سے ججوں کی تقرری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے عدلیہ میں تنوع اور خوبصورتی پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں 1973 کے آئین کو تسلیم کرتی ہیں، اور ججوں کے تبادلوں سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس کریں گے، جس کے بعد وزیر اعظم اس پر غور کریں گے اور پھر صدر مملکت کے دستخط سے یہ تقرریاں عمل میں آئیں گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ دیگر صوبوں سے اسلام آباد میں جج تعینات نہیں کیے جا سکتے۔
اعظم نذیر تارڑ نے وکلاء سے متعلق گفتگو میں کہا کہ وہ ہمیشہ وکلاء سے ملاقات کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وکلاء کے میگا سنٹر منصوبے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد عوام کی خدمت ہے، اور آئندہ بھی بھرپور جذبے کے ساتھ اس مشن کو جاری رکھا جائے گا۔