شام کی عبوری حکومت نے سابق صدر بشار الاسد کے حامی گروپوں کے خلاف جاری فوجی مہم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق، معزول صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں اور شامی فوج کے درمیان ایک ہفتے سے شدید جھڑپیں جاری تھیں، جن میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔
جنگی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک مانیٹرنگ گروپ نے انکشاف کیا کہ ان جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد عام شہری جاں بحق ہوئے، جن میں اکثریت علوی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہلاک ہونے والوں میں کئی افراد کو سرکاری فورسز اور ان کے اتحادی گروپوں نے نشانہ بنایا۔
یہ پرتشدد واقعات شام کے ساحلی علاقے میں پیش آئے، جو کہ علوی برادری کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس خونریز صورتحال نے نئی حکومت کے استحکام پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
شامی وزارت دفاع کے ترجمان حسن عبدالغنی کے مطابق، حکومت نے لاطاکیہ اور طرطوس کے ساحلی علاقوں میں سیکیورٹی خطرات اور بشار الاسد حکومت کے حامی عناصر کے خلاف جاری آپریشن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ اعلان صدر احمد الشاراع کے اس بیان کے بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
صدر احمد الشاراع نے تشدد میں ملوث عناصر کو سخت سزا دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ “شام میں تمام اقلیتی برادریوں کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔”
- صفحہ اول
- تازہ ترین
- پاکستان
- بین الاقوامی
- جڑواں شہر
- سپورٹس
- شوبز
- سی پیک
- کاروبار
- سرمایہ کاری
- رئیل سٹیٹ
- تعلیم
- صحت
- کشمیر
- ٹیکنالوجی
- آٹو
- موسمیاتی تبدیلی
- اوورسیز پاکستانی
- یوتھ کارنر
- عجیب و غریب
- کالم
تازہ ترین معلومات کے لیے سبسکرائب کریں
آرٹ، ڈیزائن اور کاروبار کے بارے میں فو بار سے تازہ ترین تخلیقی خبریں حاصل کریں۔