اسلام آباد ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے چیئرمین سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ 50 سے 60 ارب کی چوری اس حکومت کے دور میں فائنل ہوئی، جس پر 9 جولائی 2024 کو 500 ایکڑ زمین پر دستخط کیے گئے۔ انہوں نے کمیٹی اجلاس میں کہا کہ 365 ایکڑ زمین کے پیسے لے کر 500 ایکڑ زمین دینے کی بات کی گئی، اور اس زمین پر صرف دو فیصد ایڈوانس لیا جائے گا۔
کمیٹی اجلاس میں فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ اگر ہم نے 50 ارب کی چوری کا نوٹس نہ لیا ہوتا تو آپ 72 گھنٹوں میں اس معاہدے کو منسوخ نہ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ پورٹ قاسم نے ری بٹل اخباروں میں چھپوائے اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، جس نے یہ سب کیا، اس نے کمیٹی کو چیٹ کرنے کی کوشش کی۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ 60 ارب کی چوری کو غلطی کہنا ممکن نہیں، اور اس بارے میں ایڈیشنل سیکرٹری سے سوال کیا کہ وہ کس طرح اس بورڈ میں موجود تھے اور کیوں اس غلطی کی دفاع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب نے مل کر پاکستان کا 60 ارب بچایا۔
سینیٹر دنیش نے اس پر اعتراض کیا کہ گوادر اور کراچی پورٹ میں مستقل چیئرمین کیوں نہیں ہیں، اور اگر قائم مقام چیئرمین ہی کام چلا رہے ہیں تو چیئرمین کی ضرورت کیوں ہے۔ اس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ ہمیں تین آپشنز ہیں: یا تو ہم سرنڈر کریں، کرپشن تسلیم کریں یا پھر لڑیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ کیس 2006 سے چل رہا تھا اور اس میں آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی گئی۔ فیصل واوڈا نے سوال اٹھایا کہ باقی کیسز میں آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کیوں نہیں کی گئی۔
چیئرمین پورٹ قاسم نے کہا کہ اس کیس میں اس کمپنی کے علاوہ تین دیگر کمپنیوں نے حصہ لیا تھا، جنہوں نے اپنی درخواست واپس لے لی۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ اس معاملے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک فارن کمپنی جو دراصل لوکل ہے اور ڈیفالٹر بھی ہے، بورڈ کے ذریعے 60 ارب کی زمین کو انتہائی کم قیمت پر دے دیا گیا۔ فیصل واوڈا نے اسے “فوجی بورڈ” یا “ڈکٹیٹر” کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں سے بھی زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا۔
فیصل واوڈا نے یہ بھی کہا کہ بورڈ کا موقف تھا کہ اس ریفائنری کے لیے انکوائری کی ضرورت نہیں، اور اس جگہ کو بھی تبدیل کرنے کا کہا گیا۔ انہوں نے 2018 سے 2024 تک کے سیٹلمنٹ ریکارڈ کا بھی مطالبہ کیا۔