اس سال بہترین دستاویزی فلم کا آسکر ایوارڈ فلسطینی عوام کی جدوجہد پر مبنی فلم ‘نو ادر لینڈ’ نے اپنے نام کر لیا۔ یہ فلسطینی اور اسرائیلی فلم سازوں کی مشترکہ تخلیق ہے، جس میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد اور فلسطینی گھروں کی مسماری جیسے اہم موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

گزشتہ برس ریلیز ہونے کے بعد یہ فلم برلن فلم فیسٹیول، نیویارک فلم کریٹکس سرکل ایوارڈز سمیت کئی نامور ایوارڈز جیت چکی ہے۔

فلم سازوں کی عالمی برادری سے اپیل
فلم کے ڈائریکٹر، فلسطینی کارکن باسل ادرا نے اپنی ایوارڈ تقریر میں عالمی برادری سے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا:
“دو ماہ پہلے میں باپ بنا ہوں، اور میری خواہش ہے کہ میری بیٹی وہ زندگی نہ جیے جو میں گزار رہا ہوں—ہمیشہ خوف میں، آبادکاروں کے تشدد، گھروں کے انہدام اور جبری بے دخلیوں سے ڈرتے ہوئے۔”

فلم کے شریک ہدایت کار، اسرائیلی صحافی یوفال ابراہم نے اپنی تقریر میں امریکی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
“غزہ اور اس کے عوام پر جاری ہولناک تباہی کو ختم ہونا چاہیے، اور 7 اکتوبر کو ظالمانہ طور پر یرغمال بنائے گئے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔”

انہوں نے مزید کہا:
“ہم اپنی آوازیں ایک ساتھ بلند کر رہے ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم برابر نہیں۔ میں آزاد ہوں، لیکن باسل کی زندگی فوجی قوانین کے تحت برباد کی جا رہی ہے۔”

فلسطینی عوام کی حقیقت بیان کرتی ایک اہم فلم
‘نو ادر لینڈ’ فلسطینی عوام کی دہائیوں سے جاری جدوجہد اور ان پر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے لاتی ہے۔ فلم سازوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ناانصافی کو روکنے کے لیے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرے اور فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی نسل کشی کو بند کروائے۔

Share.
Leave A Reply

Exit mobile version