واشنگٹن۔یہ سخت اور غیر معمولی بحث جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حصہ لیا، عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنی۔ واشنگٹن میں ہونے والی اس ملاقات نے یوکرین کے مستقبل اور امریکہ کی پالیسی پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی ایک جھلک دکھائی ہے۔
اس بحث میں ایک طرف ٹرمپ اور وینس تھے، جنہوں نے زیلنسکی کو روس کے ساتھ امن معاہدہ کرنے میں غیر سنجیدہ قرار دیا، جبکہ زیلنسکی نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ پیوٹن کے ارادوں کے بارے میں محتاط نہیں ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ زیلنسکی کے دل میں پیوٹن کے لیے شدید نفرت ہے، جس کے باعث امن معاہدہ کرنا مشکل ہو گا۔ دوسری طرف، زیلنسکی نے پیوٹن کو قابلِ اعتماد مذاکرات کار قرار نہیں دیا اور کہا کہ وہ پہلے بھی معاہدوں کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ اس پر وینس نے زیلنسکی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ اوول آفس میں اس قسم کی بحث کا مناسب وقت نہیں تھا۔
یورپی اتحادیوں نے اس بحث کے حوالے سے مختلف ردعمل ظاہر کیا۔ جرمنی اور یورپ نے اس بحث کو غیر معمولی اور تشویشناک قرار دیا، اور کچھ نے یوکرین کے حق میں سخت موقف اپنانے کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ، کینیڈا نے بھی یوکرین کی آزادی کی جنگ میں اس کی حمایت جاری رکھنے کا عہد کیا۔
ٹرمپ نے اس دوران روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا اور کہا کہ پیوٹن کے خلاف امریکی تحقیقات ایک ”جعلی مقدمہ“ تھا۔ یہی نہیں، ٹرمپ نے پیوٹن کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت پر بھی زور دیا، جو یوکرین کے معاملے پر ان کے نرم موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ سخت بحث یوکرین اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے بعد میں اپنی پوسٹ میں کہا کہ زیلنسکی امن کے لیے تیار نہیں ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے موقف میں مزید سختی آ سکتی ہے، جو یوکرین کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ کشیدگی امریکہ اور یوکرین کے تعلقات میں مزید دراڑ ڈالے گی یا دونوں ممالک کو اس میں نئے حل تلاش کرنے کا موقع ملے گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے امریکہ کی حمایت کی ضرورت ہے، اور ٹرمپ کی پالیسیاں اس حمایت پر سوالات اٹھا سکتی ہیں، جو یوکرین کے لیے پیچیدہ اور غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتی ہیں۔