واشنگٹن۔وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس ملاقات میں ٹرمپ کی جانب سے زیلنسکی پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا، جس سے بات مزید سنگین ہوگئی، اور امریکی نائب صدر جی ڈی وینس نے بھی زیلنسکی کو کھری کھری سنائیں، جو اس صورتحال کو اور زیادہ پیچیدہ بنا گیا۔ اس کے باوجود، یوکرینی صدر نے تلخ کلامی پر معافی مانگنے سے صاف انکار کیا، اور کہا کہ جو کچھ بھی وائٹ ہاؤس میں ہوا وہ قابل قبول نہیں تھا۔

زیلنسکی نے کہا کہ وہ وائٹ ہاؤس واپس نہیں جائیں گے اور امریکہ کی مدد کے بغیر روس کو اپنی سرزمین سے نکالنا یوکرین کے لیے مشکل ہو گا، تاہم وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور امریکا کے ساتھ تعلقات کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اہم ہیں، اور وہ ایک شراکت دار کے طور پر امریکا کو کھونا نہیں چاہتے۔

روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے بھی اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس میں زوردار تھپڑ لگنا چاہیے تھا۔ روسی وزارت خارجہ نے اس تلخ ملاقات پر کہا کہ صدر ٹرمپ اور نائب صدر وینس کا تحمل ایک معجزہ تھا، اور زیلنسکی نے جھوٹ بولا کہ 2022 میں کیف حکومت اکیلی تھی۔

یورپی یونین اور جرمنی نے بھی اس ملاقات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین نے کہا کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ آزاد دنیا کو ایک نئے رہنما کی ضرورت ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے زیلنسکی کی حمایت کی اور کہا کہ یوکرین جرمنی اور یورپ پر انحصار کر سکتا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ اینالینا نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ جرمنی اور اس کے یورپی اتحادی یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کینیڈا نے بھی یوکرین کی آزادی کی جنگ میں اس کی حمایت کا عہد کیا۔

اس ملاقات سے یہ واضح ہوگیا کہ نہ صرف امریکہ اور یوکرین کے تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے، بلکہ عالمی سطح پر یوکرین کے مسئلے کے بارے میں مختلف طاقتوں کے درمیان تقسیم بھی گہری ہوتی جا رہی ہے۔

Share.
Leave A Reply

Exit mobile version