واشنگٹن۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات کے دوران جو متکبرانہ اور تحقیر آمیز سلوک دکھایا گیا، وہ تاریخ میں بہت کم نظر آتا ہے۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو اپنے ملک میں دعوت دے کر جس انداز میں بے عزت کیا، وہ ایک نیا باب بن چکا ہے۔ جے ڈی وینس نے بھی اس موقع پر زیلنسکی کو بار بار بات کرنے سے روکا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اپنے مفادات کو اولین ترجیح دے رہا ہے، چاہے وہ یوکرین کی مدد کی بات ہو یا عالمی سطح پر تعلقات کا معاملہ۔

ٹرمپ نے زیلنسکی کو براہ راست کہا کہ اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی، تو یوکرین دو ہفتے بھی روس کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ ساتھ ہی، امریکی صدر نے یوکرینی صدر سے کہا کہ وہ اس جنگ کے لیے امریکہ کو شکریہ کہیں، کیونکہ امریکہ ہی اس جنگ میں یوکرین کا سب سے بڑا معاون رہا ہے۔

اس ملاقات کے دوران ٹرمپ کا انداز تو اس قدر سخت تھا کہ نہ صرف زیلنسکی کو بے عزت کیا گیا بلکہ مشترکہ نیوز کانفرنس بھی منسوخ کر دی گئی۔ اس کے علاوہ معدنیات کے معاہدے پر بھی دستخط نہیں کیے گئے، اور امریکی صدر نے ایکس پر یہ پیغام دے ڈالا کہ زیلنسکی جب امن کے لیے تیار ہوں گے تو دوبارہ آ سکتے ہیں۔

عالمی سطح پر ٹرمپ کا رویہ عالمی تعلقات میں مزید تناؤ کا باعث بن رہا ہے۔ یوکرین کی جنگ اور غزہ کا مسئلہ دونوں امریکی مفادات کے لیے اہم ہیں اور ان پر امریکی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کے اس انداز نے نہ صرف یوکرین اور امریکا کے تعلقات میں خلل ڈالا ہے، بلکہ عالمی سطح پر امریکا کے کردار کو بھی سوالات کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔

چین اور روس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں، اور ترکی، مصر اور دیگر خلیجی ممالک کے ردعمل سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ عالمی سطح پر نئے اتحاد بن رہے ہیں اور پرانے تعلقات ٹوٹ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے غزہ اور یوکرین سے متعلق منصوبوں نے عالمی سیاست کو پیچیدہ بنا دیا ہے، اور ایک نئی عالمی صف بندی کی راہ ہموار کر دی ہے۔

Share.
Leave A Reply

Exit mobile version