امریکی حکومت نے تاریخ میں پہلی بار فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق، امریکا اور حماس کے درمیان ان مذاکرات سے واقف دو ذرائع نے انکشاف کیا کہ مذاکرات کی قیادت سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یرغمالیوں سے متعلق مشیر ایلچی ایڈم بوہلر کر رہے ہیں۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارم Axios کے مطابق، یہ مذاکرات حالیہ ہفتوں میں دوحہ میں جاری ہیں، تاہم اس سلسلے میں کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔

جنوری میں حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تنظیم، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

اس دوران، مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی قطری وزیر اعظم سے ملاقات کا بھی امکان تھا، تاہم یرغمالیوں کے معاملے پر نمایاں پیش رفت نہ ہونے کے باعث یہ ملاقات مؤخر کر دی گئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکا نے حماس سے مذاکرات کے امکان پر اسرائیلی حکومت سے بھی مشاورت کی تھی۔

واضح رہے کہ امریکا نے 1997 میں حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا اور اس کے بعد کبھی براہ راست بات چیت نہیں کی۔

فی الحال، حماس کے قبضے میں ایک امریکی یرغمالی، ایڈن الیگزینڈر موجود ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں، جبکہ تنظیم کے پاس امریکی اسرائیلی یرغمالیوں ایتے چن، گاڈ ہیگئی، جوڈی وائنسٹائن اور عمر نیوٹرا کی لاشیں بھی ہیں۔

امریکا اور حماس نے براہ راست مذاکرات کے حوالے سے فی الحال کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے۔

Share.
Leave A Reply

Exit mobile version