اسلام آباد۔وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ دھرنوں کے اخراجات کا ذریعہ کیا تھا، کیونکہ کوئی بھی شخص ہفتوں تک جاری رہنے والے دھرنے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کو دوبارہ آباد کیا گیا۔
لاہور میں یوتھ کانفرنس کے دوران سوال و جواب کی نشست میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک کو اب بھی دہشت گردی کے ناسور کا سامنا ہے۔ دہشت گرد گوریلا جنگ میں کسی اخلاقی ضابطے کے پابند نہیں ہوتے، اور جب ان کے لیے کوئی حد مقرر نہ ہو تو پھر اے پی ایس جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات جاری ہیں۔
عطاء اللہ تارڑ نے واضح کیا کہ اے پی ایس حملے کے ذمہ داران اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے، لیکن اب ہمیں اچھے اور برے طالبان کی بحث کا سامنا ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی ہمدرد نہیں ہوتا، ان کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ اصول، لیکن اس کے باوجود انہیں خیبر پختونخوا میں دوبارہ بسایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2017 کے دوران ن لیگ کی حکومت نے لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات کا خاتمہ کیا، مگر یہ پھر سے کیسے لوٹ آئی؟ جنوبی خیبر پختونخوا اور پنجاب میں دہشت گردوں کی واپسی دیکھی جا رہی ہے، حالانکہ دہشت گرد صرف تباہی مچانے اور بھتہ وصول کرنے کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملکی سالمیت کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اے پی ایس حملے کے بعد ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا، ٹی ٹی پی نے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا اور ملک میں عدم استحکام پیدا کیا۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا کیونکہ جو معصوم بچوں کی جان لیتے ہیں، وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں سیاسی رہنماؤں پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر قومی ترقی کے منصوبوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ کچھ لوگ مرسڈیز میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کے منصوبے ناپسند کرتے ہیں، حالانکہ یہی سہولیات ڈاکٹرز، انجینیئرز اور نرسز کے لیے بھی مفید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا قیام کیوں ضروری تھا۔ اس ملک کی بنیاد لاکھوں قربانیوں پر رکھی گئی، اور آزادی کی خاطر بے شمار افراد نے مشکلات کا سامنا کیا۔ دو قومی نظریہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا قیام پاکستان کے وقت تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے باعث آج دو قومی نظریے کی اہمیت مزید بڑھ چکی ہے۔ غزہ، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بات کی جائے تو سوشل میڈیا پر خاموشی چھا جاتی ہے۔
عطاء تارڑ نے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ان مظالم کے خلاف آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم سب جو کچھ بھی ہیں، پاکستان کی وجہ سے ہیں، اور اگر پاکستان قائم ہے تو سیاست بھی موجود رہے گی۔ تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور آج بھی ملک کی ترقی میں ان کا کردار ناگزیر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کہیں بھی بغیر فیس لیپ ٹاپ تقسیم نہیں کیے جاتے، مگر پاکستان میں نوجوانوں کو پہلی بار میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ فراہم کیے گئے۔ کووڈ کے دوران آن لائن تعلیم اور ورک فرام ہوم کی سہولت برقرار رہی کیونکہ لاکھوں طلبہ کے پاس لیپ ٹاپ موجود تھے۔ اربوں روپے کے انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے طالبعلموں کو بیرون ملک تعلیم کے مواقع فراہم کیے گئے۔ جو لوگ محض سیاسی نعرے لگاتے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کتنے تعلیمی اور ترقیاتی منصوبے متعارف کرائے؟ کیا انہوں نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (PKLI) یا لیپ ٹاپ اسکیم جیسا کوئی منصوبہ بنایا؟
انہوں نے کہا کہ دانش اسکولوں پر اعتراض کیوں کیا گیا؟ جنوبی پنجاب میں یتیم اور غریب بچوں کو معیاری تعلیم دی گئی، جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں بدل گئیں۔ اگر یہ اسکول نہ ہوتے تو بہت سی لڑکیاں گھریلو کام کاج میں مصروف ہوتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 12 سال میں خیبر پختونخوا میں کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ جیسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ماضی میں مریضوں کو علاج کے لیے بھارت جانا پڑتا تھا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مستقبل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنائے۔ 1990 کی دہائی میں لاہور-اسلام آباد موٹروے کی شدید مخالفت کی گئی تھی، لیکن آج وہی موٹروے ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ آج عوام اسی موٹروے کے ذریعے آسان سفر کر رہے ہیں۔ اسی طرح، لیپ ٹاپ اسکیم پر بھی تنقید کی گئی، مگر اس کے فوائد سب کے سامنے ہیں۔