لندن۔ ماہرین ارضیات نے انتباہ دیا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں ایک بڑے حصے کی علیحدگی قریب ہے اور یہ بہت جلد واقع ہو سکتا ہے۔
تحقیقات کے مطابق برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہونے والا ہے، اور اس تقسیم کے سب سے بڑے خطرات پاکستان کے گلگت بلتستان اور بھارتی علاقوں لداخ، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم، اور اروناچل پردیش کو لاحق ہیں۔
5 مئی 2022 کو صبح 11 بجے، تبت کے قریب چینی علاقے سیچوان میں ایک زبردست زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ عمارتیں چند منٹوں میں مکمل طور پر منہدم ہو گئیں، اور قریباً 100 افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ زلزلہ تبت میں پچھلے پانچ سالوں میں 2046 واں زلزلہ تھا، یعنی پچھلے پانچ سالوں میں ایک ہی مقام پر 2000 سے زیادہ زلزلے آئے۔ اس لئے دنیا بھر سے ماہرین ارضیات تبت میں جمع ہونا شروع ہوگئے تاکہ اتنی بڑی تعداد میں زلزلوں کی وجوہات معلوم کی جا سکیں۔
جب یہ ماہرین ارضیات شمالی بھارتی ٹیکٹانک پلیٹس پر تحقیق کر رہے تھے، تو انہوں نے ایک عجیب قدرتی مظہر دیکھا جو پہلے شاید کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ صرف 2023 میں شمال مشرقی بھارت اور نیپال میں 97 زلزلے آئے جو 2021 اور 2022 کے مقابلے میں دوگنے تھے۔
ابتداء میں ماہرین کو لگتا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ دو ٹیکٹانک پلیٹس “انڈین اور یوریشین پلیٹس” کی سرحد پر واقع ہے، لہٰذا یہاں زلزلے آنا معمول کی بات ہے کیونکہ ٹیکٹانک پلیٹس کی سرحدوں پر زلزلے آنا عام ہے۔
یہ سرحدیں صرف پاکستان اور بھارت کے ان علاقوں تک محدود نہیں ہیں جن کا ذکر کیا گیا، بلکہ یہ کراچی سے لداخ تک اوپر کی طرف جاتی ہیں، پھر تبت اور اروناچل پردیش سے ہوتی ہوئی میانمار تک پہنچتی ہیں۔
اگر یہ زلزلے ٹیکٹانک پلیٹس کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے ہیں تو انہیں پاکستان اور میانمار میں بھی آنا چاہئے تھا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور پچھلے چھ سالوں میں اس پوری سرحد پر صرف چار یا پانچ زلزلے آئے۔
اس کا مطلب ہے کہ اس شمالی سرحد پر ٹیکٹانک پلیٹس کی حرکت کے علاوہ کچھ اور بھی ہو رہا ہے جو اس علاقے میں اتنے زیادہ زلزلے پیدا کر رہا ہے۔
ابتداء میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمالیہ کی پہاڑی سلسلہ انڈین اور یوریشین ٹیکٹانک پلیٹس کے ٹکرانے سے وجود میں آیا، لیکن یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔
اصل میں، 100 ملین سال پہلے انڈین اور یوریشین پلیٹس کے درمیان ایک سمندر تھا جسے “ٹیتھس” سمندر کہا جاتا تھا اور اس سمندر کے نیچے ایک اور پلیٹ تھی جسے “شیروڈا پلیٹ” کہا جاتا تھا۔
جب انڈین اور یوریشین پلیٹس آپس میں ٹکرا گئیں تو شیروڈا پلیٹ ان کے نیچے دب گئی، اور ماہرین نے تحقیق کے دوران پایا کہ مذکورہ علاقے وہ ہیں جہاں سے شیروڈا پلیٹ انڈین اور یوریشین پلیٹ کے نیچے دب گئی تھی۔
جہاں اس پلیٹ کی چوڑائی پورے علاقے میں 100 کلومیٹر تھی، تبت میں یہ پلیٹ 80 کلومیٹر چوڑی تھی، یعنی باقی علاقے سے 20 کلومیٹر کم۔ مگر یہ پلیٹ یہاں پتلی کیوں تھی؟ زمین کے نیچے کیا ہو رہا تھا جس سے یہ پلیٹ مسلسل پتلی ہو رہی تھی؟
دسمبر 2023 میں چینی ماہرین ارضیات نے یہاں تفصیلی تحقیق شروع کی اور ایک تھری ڈی ماڈل تیار کیا، جس سے انہیں معلوم ہوا کہ تبت کی اس 80 کلومیٹر کی پلیٹ کے نیچے اصل میں میگما ہے۔
لیکن اس میگما کے نیچے دوبارہ کرسٹ موجود ہے، جس سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی وقت یہاں انڈین پلیٹ میں ایک دراڑ آئی ہوگی جس سے میگما اس خالی جگہ میں بھر گیا۔ اسی وجہ سے یہاں کی اندرونی ساخت میں بے قاعدگی کی وجہ سے بہت زیادہ زلزلے آتے ہیں اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے یہاں ٹیکٹانک پلیٹس ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں داخل ہوتی جائیں گی، اسی رفتار سے آنے والے سالوں میں یہ تمام علاقے انڈین سب کانٹیننٹ سے علیحدہ ہوتے جائیں گے۔