اسلام آباد ۔سینیٹر فیصل واوڈا نے ایف بی آر کی جانب سے فیلڈ افسران کے لیے 1010 گاڑیاں خریدنے کے معاملے پر سینیٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس پروکیورمنٹ میں شفافیت کا فقدان ہے اور ابھی تک کسی اخبار میں اشتہار بھی جاری نہیں کیا گیا۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ ایف بی آر کا سالانہ ٹیکس ہدف 384 ارب روپے پورا نہیں ہو سکا اور اس کے باوجود غیر ضروری گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گاڑیاں خوش کرنے کے لیے خریدی جا رہی ہیں اور شاید اوپر سے حکم آیا ہے کہ یہی گاڑیاں خریدنی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر کے ملازمین کو پہلے ہی اضافی تنخواہیں دی جا رہی ہیں اور گاڑیاں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا آپشن بھی موجود ہے۔ فیصل واوڈا نے الزام لگایا کہ مخصوص کمپنیوں کو فائدہ دیا جا رہا ہے اور اگر مافیا کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو مقدمے بنا دیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑیاں گریڈ 20 سے اوپر کے افسران کو دی جانی چاہئیں، لیکن یہاں گریڈ 16 سے اوپر کے افسران کو گاڑیاں دی جا رہی ہیں۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ “ہم فیورٹ ازم کو قبول نہیں کریں گے اور چوری و غنڈہ گردی کے خلاف کھڑے رہیں گے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ مخصوص کمپنیوں کو فیور دی جارہی ہے، اور مافیا کے خلاف آواز اٹھائیں تو فائلیں کھل جاتی ہیں اور مقدمے بنائے جاتے ہیں۔
وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے فیصل واوڈا کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ گاڑیاں گریڈ 17 اور 18 کے فیلڈ سٹاف کے لیے ہیں اور ان پر ٹریکر لگائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ گاڑیاں سیلز ٹیکس حکام کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے خریدی جا رہی ہیں۔
وزیر قانون نے مزید وضاحت کی کہ دنیا بھر میں ٹیکس کلیکٹر شعبہ اپنی وصولی کا 5 فیصد خرچ کرتا ہے، جبکہ پاکستان میں یہ خرچ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے اور ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سے ٹیکس کا ہدف حاصل کیا جائے گا۔ وزیر قانون نے یہ بھی وضاحت کی کہ گاڑیاں ایف بی آر کے ایلوکیٹڈ بجٹ سے خریدی جائیں گی اور اس کا مقصد فیلڈ سٹاف کی کارکردگی میں بہتری لانا ہے۔