راولپنڈی: بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوئی، جہاں نیب کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کر لیے۔
ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی، جو ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہی۔ نیب کی جانب سے امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل پیش کیے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ 6 نومبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن اس وقت کی حکومت کو معاہدے کو خفیہ رکھنے کا اختیار نہیں تھا۔
نیب وکیل نے بتایا کہ این سی اے نے 29 نومبر 2019 کو نجی ہاؤسنگ اسکیم کے لائیبلٹی اکاؤنٹ میں پہلی قسط منتقل کی، جبکہ اس وقت کے وزیراعظم نے 2 دسمبر کو کابینہ سے معاہدے کو خفیہ رکھنے کی منظوری لی، جو کہ غیر روایتی عمل تھا۔
دلائل میں کہا گیا کہ کابینہ کے قواعد کے مطابق میٹنگ سے 7 روز قبل ایجنڈا تمام اراکین کو فراہم کیا جاتا ہے، لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا، جو رولز آف بزنس 1973 کی خلاف ورزی ہے۔
امجد پرویز نے مزید کہا کہ اگر کوئی عوامی عہدہ رکھنے والا شخص کسی بھی قسم کی رقم یا فائدہ حاصل کرتا ہے، تو وہ ریاست کی ملکیت تصور ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ضبط شدہ رقم کو ریاست کے بجائے نجی ٹاؤن کے لائیبلٹی اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا، جو نیب آرڈیننس کے سیکشن 5 اور دفعہ 92 کی خلاف ورزی ہے۔
دلائل میں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹرسٹ کے قیام سے قبل ہی 240 کنال زمین منتقل کی گئی اور ملزمان نے اپنے 342 کے بیانات میں معاہدے کی کوئی کاپی پیش نہیں کی۔ نیب نے عدالت میں پاکستانی ہائی کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقول بھی جمع کرائیں۔
احتساب عدالت نے نیب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت میں وکلائے صفائی اپنے حتمی دلائل کا آغاز کریں گے۔