76 سال کے غاصبانہ قبضہ، جلاوطنی، قید، قتل و غارت اور صہیونی حکومت کے جرائم کے بعد، ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیلی حکومت کے خلاف آپریشن “طوفان الاقصیٰ” شروع کیا تاکہ قبضے، قتل اور غیر انسانی جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔
یہ فیصلہ مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں اور فلسطین اور غزہ کے عوام نے کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے، دنیا کے باقی حصوں کی طرح، اس آپریشن کے بارے میں میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کیں۔ تاہم، فلسطینی عوام کی اپنے وطن کی جدوجہد آزادی کی حمایت اصولی پالیسی کے تحت، ایران نے فلسطینی عوام، حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی دیرینہ حمایت جاری رکھی۔
اس اقدام کے جواب میں، صہیونی حکومت نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی مکمل حمایت کے ساتھ، اور بین الاقوامی اداروں اور عالمی برادری کی خاموشی اور کسی عملی اقدام کے فقدان کے باعث، مظلوم فلسطینی عوام کی وہ نسل کشی کی جسکی مثال نہیں ملتی، جس کے نتیجے میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوا، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں۔
یہ مجرم حکومت تمام تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپتالوں، اسکولوں، ایمبولینسوں، امدادی گروپوں اور صحافیوں پر حملے کر چکی ہے اور غزہ، مغربی کنارے اور حالیہ دنوں میں لبنان میں تمام بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر چکی ہے۔ یہ بہیمانہ جرم اور نسل کشی بے روک ٹوک جاری ہے۔
دنیا نسل کشی، بچوں کے قتل، انسانیت کے خلاف جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، مختلف ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزیاں، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال، سائبر دہشت گردی، ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل جنگ، قتل، سفارتی حقوق کی خلاف ورزیوں، سفارتی مقامات پر حملوں، اور ثقافتی ورثے اور مشترکہ روحانی ورثے کی تباہی کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ دریں اثنا، امریکی اور مغربی عہدیدار ان تمام انسانیت کے خلاف جرائم کی توثیق کرتے ہیں اور انہیں انصاف قرار دیتے ہیں۔
جس دن اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، صہیونی دہشت گرد حکومت نے فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ جو ہمارے مہمان تھے کو ہمارے سرزمین تہران میں قتل کر دیا۔ یہ ایران کی خودمختاری کی واضح خلاف ورزی تھی، اور ایران کے لیے جوابی اقدامات کا حق بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک جائز، قانونی اور نافذ العمل حق ہے۔
تاہم، اسلامی جمہوریہ ایران نے حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے جاری مذاکرات کی کامیابی خاطر، اور غزہ کے بے یار و مددگار عوام کی تکالیف کو کم کرنے کی غرض سے مختلف ممالک کی جانب سے کی جانے والی متعدد درخواستوں کے جواب میں، صبر کا مظاہرہ کیا اور اپنے جائز حقِ دفاع کو جنگ بندی کے مذاکرات کے نتائج کے تعین تک ملتوی کیا۔
اس دوران یہ واضح ہو گیا کہ یہ درخواستیں محض وقت حاصل کرنے کی سازش تھیں تاکہ غزہ میں اس حکومت کے آپریشنل اھداف کی تکمیل ہو سکے اور مغربی کنارے اور لبنان پر حملے کی تیاری ہو سکے۔
غزہ کے بعد، صہیونی حکومت نے لبنان تک اپنی جارحیت پھیلائی اور 27 ستمبر 2024 کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 85 امریکی بنکر بلسٹر بموں کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ کو شہید کیا ۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں، حزب اللہ کے جنگجوؤں اور عام شہریوں کے علاوہ، ایران کے سینئر فوجی مشیر جنرل عباس نیلفروشاں بھی شہید ہو گئے۔
نتیجتاً، دو ماہ کے صبر کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت، صہیونی حکومت کی جارحانہ کارروائیوں کا جواب دیا، جس میں ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزیاں شامل ہیں، جیسا کہ شہید اسماعیل ہنیہ کا قتل اور لبنان کے عوام کا قتل عام۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے اخلاقی اور اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے، اور بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق امتیاز کے اصول کا مکمل احترام کرتے ہوئے، صرف ان فوجی اور سیکیورٹی اڈوں کو نشانہ بنایا جو غزہ اور لبنان میں نسل کشی کے ذمہ دار تھے۔ آپریشن کے اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے، 90 فیصد سے زائد کامیابی کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنایا۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی کسی دوسرے ملک کے علاقے پر حملہ نہیں کیا اور وہ امن اور علاقائی اور عالمی استحکام کا خواہاں ہے۔ تاہم، وہ کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنے جائز حقِ دفاع کے استعمال میں کوئی دریغ نہیں کرے گا۔
اب، ایران کی کارروائی مکمل ہو چکی ہے، جب تک کہ اسرائیلی حکومت، ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی جارحیت جاری نہیں کرتی یا کسی اور خطرناک مہم جوئی میں ملوث نہیں ہوتی، جس سے مزید جوابی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں، ایران کا جواب زیادہ شدید اور طاقتور ہو گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سرزمین اور مفادات کے خلاف کسی بھی جارحیت کے جواب میں، کسی بھی جارح کی جانب سے کسی بھی مقام سے کی جانے والی جارحیت کا فیصلہ کن اور مضبوطی سے جواب دے گا۔
امریکہ اور صہیونی حکومت کے مغربی حامیوں کو اپنی زبانی جمع خرچ کے بجائے اسرائیلی حکومت کی مسلح اور مالی مدد کو روک کر ایک وسیع علاقائی جنگ کو روکنے کے اپنے دعوے ثابت کرنا ہوں گے۔
صہیونی حکومت اپنی واحد نجات کو امریکہ کی شمولیت کے ساتھ ایک جامع علاقائی اور بین الاقوامی جنگ میں دیکھتی ہے۔ اس لیے، اسرائیل کے حامی، خاص طور پر امریکہ، کو اب اس جنگ کو روکنے کی زیادہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی۔
بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اسلامی ممالک، کو فوری کارروائی کرتے ہوئے صہیونی حکومت کے اقدامات کی واضح اور فیصلہ کن مذمت کرنی چاہیے اور اسرائیلی حکومت کی جارحیت اور نسل کشی کو ختم کرنے کے لیے اپنی تاخیر شدہ ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے اور ان مسلم قوموں کے غصے کو کم کرنا چاہیے جو ایک لاوے کیطرح کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
سفارتخانہ جمہوریہ ایران – اسلام آباد