لندن۔مسلسل جاری اسرائیلی جارحیت اور ایران پر حملوں کے تناظر میں مسلم دنیا کی متعدد ریاستوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اسرائیل کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ اعلامیہ مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف جاری عسکری مہم جوئی کے باعث پیدا ہونے والی بے مثال کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری کیا گیا۔
اس مشترکہ موقف کی تائید پاکستان، سعودی عرب، عراق، قطر، کویت، مصر، اردن، الجزائر اور بحرین نے کی ہے، جبکہ برونائی دارالسلام، چاڈ، اتحاد القمری، جبوتی، لیبیا، موریتانیہ، صومالیہ اور سوڈان بھی اس اعلامیے کی توثیق کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔ ترکیہ، عمان اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس اعلامیے کی مکمل حمایت کی ہے۔
اعلامیے میں 13 جون سے ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایسے اقدام کی مخالفت کی جائے گی جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور ریاستی خودمختاری و علاقائی سالمیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو۔
اعلامیے میں مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے، مکمل جنگ بندی قائم کرنے اور امن بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جو خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتی ہے۔
مسلم ممالک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو جوہری اور دیگر تباہ کن ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کی فوری ضرورت ہے، اور یہ اصول تمام ریاستوں پر یکساں طور پر لاگو ہوگا۔
اعلامیے میں اس امر کی بھی اہمیت اجاگر کی گئی ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں موجود جوہری تنصیبات کو نشانہ نہ بنایا جائے، اور خطے میں این پی ٹی (عدم پھیلاؤ کے معاہدے) میں تمام ریاستوں کی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
مسلم دنیا نے واضح کیا ہے کہ اس نوعیت کی کارروائیاں نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ 1949 کے جنیوا کنونشنز کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، ایرانی جوہری معاملے پر مذاکراتی عمل کی فوری بحالی کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ ایک پائیدار معاہدہ ممکن ہو سکے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہی واحد مؤثر اور قابلِ عمل راستہ ہے۔ بین الاقوامی سمندری راستوں میں جہاز رانی کی آزادی اور سمندری سلامتی کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے، تاکہ خطے میں مزید عدم استحکام سے بچا جا سکے۔
آخر میں، اعلامیے میں فوجی تصادم کو حل کے بجائے مسئلے کی سنگینی میں اضافے کا باعث قرار دیا گیا ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صرف سفارتکاری، مذاکرات اور خوشگوار ہمسائیگی جیسے اصولوں کی بنیاد پر ہی خطے میں دیرپا امن ممکن ہے۔