اسلام آباد ۔5جون 2025 کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں “ماحولیات کا عالمی دن” منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسان کو اس کے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ آج کا انسان ایک ایسے دور میں جی رہا ہے جہاں سائنسی ترقی اور صنعتی انقلاب نے زندگی کو سہل ضرور بنایا، لیکن اس کے بدلے میں فطرت کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا گیا کہ اب وہی فطرت انسان سے انتقام لینے کے لیے بےتاب نظر آتی ہے۔
ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ ایک بحران کا شکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک سست زہر کی مانند ہر شعبہ زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب گرمیوں اور سردیوں کا ایک متوازن نظام ہوتا تھا، بارشیں وقت پر ہوتی تھیں اور زمین سونا اُگلتی تھی۔ لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز جو صدیوں سے پانی کا مستقل ذریعہ تھے، اب تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ 2022 میں گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں اچانک آنے والے گلیشیائی سیلابوں (Glacial Lake Outburst Floods) نے کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ اس تباہی نے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، اور بنیادی انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔
اسی طرح 2022 ہی کے مون سون سیزن میں پاکستان کو صدی کا بدترین سیلاب درپیش رہا۔ ملک کے ایک تہائی حصے میں پانی کھڑا ہو گیا، تقریباً 1,700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ کیا یہ سب محض اتفاق تھا؟ نہیں! یہ ماحولیاتی تبدیلی کی سنگین علامات ہیں، جن سے آنکھ چرانا خودکشی کے مترادف ہے۔
رواں برس بھی گرمی کی شدت نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ سندھ اور پنجاب کے کئی شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ ہیٹ ویوز اب معمول بن چکی ہیں، جو نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ بجلی، پانی، زراعت اور صحت کے نظام پر ناقابلِ تلافی دباؤ ڈال رہی ہیں۔ مزدور طبقہ، کسان، بزرگ شہری اور بچے اس عذاب کا پہلا شکار بنتے ہیں۔
ان سب خطرات کے باوجود ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ اس بگڑتے ماحول کے ذمہ دار ہم خود ہیں، اور اس کو بہتر بنانے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کا مطلب صرف بڑے منصوبے یا حکومتی اقدامات نہیں، بلکہ یہ انفرادی رویوں کی تبدیلی سے بھی جُڑا ہے۔
ہم اگر چند آسان لیکن مؤثر عادتیں اپنائیں تو بڑی حد تک بہتری لا سکتے ہیں:
ایک درخت کا لگانا کئی جانوں کی حفاظت ہے۔
پلاسٹک بیگز کا استعمال ترک کرنا ماحولیاتی آلودگی کے خلاف پہلی جنگ ہے۔
غیر ضروری گاڑیوں کا استعمال کم کرنا دھویں اور شور کی آلودگی کو کم کرتا ہے۔
توانائی کی بچت اور متبادل ذرائع کا استعمال جیسے سولر پینل، مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔
پانی کا ضیاع روکنا، آنے والی نسلوں کے لیے زندگی بچانے کے مترادف ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ماحولیاتی شعور کو تعلیمی اداروں، میڈیا، مساجد، اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے عام کرنا ہوگا۔ ہماری نئی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ ماحولیاتی تحفظ کوئی فیشن نہیں بلکہ فرض ہے۔
اگر ہم نے ابھی بھی ہوش نہ سنبھالا تو آنے والے دنوں میں پانی قیمتی ترین دولت بن جائے گا، زمین بنجر ہو جائے گی، اور فضا ایسی زہریلی ہو جائے گی کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ ماحولیات کا عالمی دن ہمیں صرف تقریریں کرنے کے لیے نہیں، عمل کرنے کے لیے یاد دلاتا ہے۔آج ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم نہ صرف خود ماحول دوست طرزِ زندگی اپنائیں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں گے۔ یہ زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ ہمیں اسے تباہی سے بچانا ہے۔