(تحریر: طارق محمود)
قصرِ ابیض سے فرمان جاری ہوا اور پھر “جنگ رک گئی”۔ کہیں خوشی کہیں غم۔ بھارت میں “نریندر کا سرنڈر” کا نعرہ بلند ہوا اور مودی کی عزت تار تار ہو گئی۔ کیونکہ گرجنے والے برسے نہیں اور “خموشوں نے طوفان” برپا کر دیا۔ ایسا طوفان جس نے نام نہاد سیکولر ریاست کے تمام ستون ہلا دیئے۔ اقلیتوں کے استحصال سے لے کر کشمیر کی بربریت ایک دم سے عالمی منظر نامے پر آ گئی۔ بھارت نے سوچا کچھ تھا، ہو کچھ گیا۔ تکبر اور غرور خاک میں مل گیا۔ مودی نے ہندوستان کو اپنی انا اور سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ مظلوموں اور معصوموں کی آہیں انہیں لے ڈوبیں۔ مکر، فریب اور فرعونیت کے کھیل کا پانسہ قدرت نے ایسا پلٹا کہ بالا دستی اور برتری کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔ مستقبل کے مکروہ منصوبے خاک میں مل گئے۔ یہ سارا منظر ہمارے لئے بھی ایک بڑا سبق ہے۔
طاقت کا گھمنڈ انفرادی ہو یا ریاستی ایک روز زمین بوس ہو جاتا ہے۔ وقت ہمیں بہت کچھ سکھا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ بڑھکیں مارنے کے بجائے سجدہ شکر بجا لاؤ۔ نفاق کو اتفاق میں بدلو۔ عدم استحکام سے مستحکم ہونے کے سفر کا آغاز کرو۔ ذاتی انا کی قربانی ناگزیر ہو چکی۔ خوشامدیوں اور درباریوں کو دور کرنے کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔ یہ خوشامدی اُس نشے میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کا خمار غلطیوں پر غلطیاں کرواتا ہے۔ وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور پھر صرف پچھتاوا مقدر بن جاتا ہے۔ فتح کے بعد دو طرح کے احساس جنم لے سکتے ہیں۔ احساس تشکر یا احساس تکبر۔ احساس تشکر انسان کو آپے میں رکھتا ہے اور احساس تکبر اسے آپے سے باہر کر دیتا ہے۔ یہ احساس انفرادی ہو یا اجتماعی فائدہ اور نقصان دونوں میں واضح ہے۔ بعض اوقات فتح کا خمار اس قدر سرچڑھ کر بولتا ہےکہ ارد گرد کے حالات کا علم وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔ ہمیں اسی کیفیت سے بچنا ہے۔ نہ جنگ کسی مسئلہ کا حل ہے اور نہ ہی جنگی ماحول۔ اس خطے کو اس ماحول سے نکلنا اور نکالنا ہوگا۔ پاکستان کے لئے ایک تاریخی موقع ہے۔ ہماری عسکری بالادستی ثابت ہوئی اور سفارتی کامیابیوں کے جھنڈے بھی عالمی افق پر نظر آئے۔ میڈیا کی ذمہ داریوں کا چرچہ بھارتی میڈیا کی غیر ذمہ داری کے باعث زیادہ رہا۔ گفتگو، بحث، اختلاف رائے مضبوط معاشرے کی اساس ہوتا ہے۔ اگر یہ ختم ہو جائے یا ختم کر دیا جائے تو صرف قبرستان کا سا سکوت باقی رہ جاتا ہے اور کوئی اس سکوت پر خوش ہو تو اس کی عقل پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
آئندہ آنے والا وقت فیصلہ کن ہے۔ دشمن کو کمزور سمجھنا دانشمندی نہیں ہوتا۔ بھارت کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی بہت سی وجوہات ہیں یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ٹیرف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ کبھی تمام حدود پار کردیں او کبھی یوٹرن لے کر سب کو حیران کردیا۔ وہ بھارت کے معاملے پر بھی ایسا کھیل ہی کھیل رہے ہیں۔ اپنے بیانات کے ذریعے بھارت کو پریشان بھی کررہے ہیں اور حیران بھی۔ یہ سب کچھ ڈیل کرنے کا حربہ بھی ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ کھیل زیادہ طول نہیں پکڑے گا۔ بھارت اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور انہیں بھرنے کے لیے خوب تگ و دو میں مصروف ہے۔ اسے امید ہے کہ امریکہ اور بالخصوص صدر ٹرمپ اپنے فائدے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے، اپنی ساکھ بحال کرنے اور اپنی سفارتی ناکامی کا کفارہ ادا کرنے کے لیے بھارت کے پاس امریکہ کو خراج ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا اور وہ یہ کڑوی گولی ہر صورت نگلنے کے لیے تیار ہوگا۔ ان حالات میں ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے تاریخی موقع کچھ عرصے میں گنوادینا ہے یا اسے آغاز سفر قرار دے کر منزل پر پہنچنا ہے۔ بہت سے سیاسی مسائل سے جان چھڑانے، اداروں کی تکریم بڑھانے کا یہ سنہری موقع ہے۔ انا کا خول ٹوٹنے اور بکھرے گھر کو سمیٹنے میں سب کا فائدہ ہے مگر اس کے لیے وقت زیادہ نہیں ہے۔ کچھ عرصے بعد صورتحال ایسی نہیں ہوگی جو آج ہے۔ ہاتھوں سے ہاتھ ملیں تو کیا ہی بات اور ہاتھ پھر گریبانوں تک پہنچے تو پھراللہ” تُو” ہی حافظ۔۔
تحریر: طارق محمود 30 سال سے زائد عرصے سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان دنوں سماء ٹیلی وژن میں ڈائریکٹر نیوز کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
No Comments
Good