(تحریر: عینی خان)
کہتے ہیں بعض لمحے وقت کی گردش میں گم ہو جاتے ہیں، مگر کچھ ساعتیں ایسی ہوتی ہیں جو قوموں کے حافظے میں سنہری حروف سے رقم ہو جاتی ہیں۔ وہ لمحہ، جب پاک بھارت حالیہ کشیدگی اپنے نقطۂ عروج پر تھی، جب دشمن کی سرزمین سے بلند ہونے والی جارحانہ دھمکیاں ہماری فضاؤں کی حرمت کو چیلنج کر رہی تھیں، تب ہماری خاموشی، ہماری تیاری اور ہماری پیشہ ورانہ مہارت نے وہ کر دکھایا جو الفاظ میں نہیں بلکہ تاریخ کی روح میں محفوظ رہے گا۔
یہ صرف ایک جنگ نہ تھی، یہ ایک لمحے میں سمٹ جانے والا وہ عہدِ وفا تھا، جہاں قوم کے بیٹے اپنی سانسوں پر دستخط کر رہے تھے، اور قلم لہو سے بھیگا ہوا تھا۔ ان لمحوں کی ساعتیں گھڑیوں سے نہیں، دعاؤں سے ناپی جاتی ہیں۔ وہی لمحے جب پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی پروازوں کو موت کے سائے میں اڑان بخشی، اور آسمان پر آزادی کا ترانہ رقم کیا۔ دشمن کا غرور آتشِ غرور میں جلتا رہا اور ہمارے شاہین خاموشی سے اپنی ماؤں، بہنوں، بیویوں اور بچوں کو امانتِ خدا کے سپرد کر کے نکل پڑے تھے بے آواز، بے طلب، فقط وطن کے نام پر۔
کسے معلوم تھا کہ یہ پرندے صرف جہاز نہیں اڑائیں گے، تاریخ کے سینے میں سوراخ کر جائیں گے۔ اِن کے ماتھے پر سجدے کی لکیریں تھیں اور آنکھوں میں شہادت کی تمنا، ہاتھ میں کنٹرول تھا اور دل میں جنون۔ کسی نے ماں کو کہا “ماں! اگر واپس نہ آیا، فخر کرنا، بیٹا فرض نبھا گیا”، تو کسی نے خاموشی سے گھر کی چوکھٹ چومی اور پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ پل جب بیس کیمپ کے گرد موت رقص کر رہی تھی، اور لڑکوں کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں وہ مسکراہٹیں جو ہم جیسوں کو زندہ رکھنے کے لیے کفن اوڑھ چکی تھیں۔
ایم ایم عالم کی وراثت کوئی ماضی کا افسانہ نہیں، یہ آج کی پرواز ہے۔ وہی شاہین، وہی رُت، وہی آسمان اور وہی جگر، جس میں غیرت کی آگ دہکتی ہے۔ دشمن نے رات کی تاریکی میں وار کیا، مگر ہمارے شاہینوں نے صبح کی روشنی کو اپنے بازوؤں سے چمک بخش دی۔ وہ فقط طیارے نہیں تھے، وہ ایمان کے روشن مینار تھے، جو فضا میں بلند ہو کر دشمن کے غرور کو زمین پر پٹخ آئے۔ وہ لمحہ جب دشمن کی آنکھوں سے تکبر کا خمار اترا، اور زمینی حقیقت نے اس کا گریبان پکڑا وہ لمحہ صرف ایک فتح نہ تھی، ایک نظریاتی صداقت کا اعلان تھا۔
اور زمین؟ زمین پر میجر عزیز بھٹی کی مٹی آج بھی نم ہے۔ اس کی رگوں سے نکلنے والا خون آج بھی قومی پرچم میں سرخی بن کر لہراتا ہے۔ یہ وہی زمین ہے جس پر سجدہ ہو تو عبادت بنتی ہے اور جس پر جان دی جائے تو شہادت۔ وہ جوان جو مورچوں میں لیٹے رہتے ہیں جیسے زمین کی نبض سن رہے ہوں، وہی مٹی کی حفاظت کرتے ہیں جیسے ماں کے آنچل کی۔ کبھی وہ ٹینکوں کی گھن گرج میں اذان کی صدا بن جاتے ہیں، کبھی وہ خاموشی سے اپنی ہڈیاں گلوا کر وطن کی جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہ وہی سپاہی ہیں، جو اپنی نیندیں قوم کی صبحوں پر قربان کرتے ہیں۔
وہ لمحے جب دشمن نے سمجھا کہ صرف ٹیکنالوجی، صرف تعداد، صرف حجم ہی جنگ جیتتے ہیں، اُسی لمحے پاک فوج نے اُسے بتایا کہ جنگیں دلوں کے حوصلے، جذبے کے طوفان اور زمین سے بندھے عشق سے جیتی جاتی ہیں۔ نہ وہ حملہ پہلی بار تھا، نہ ہماری تیاری عارضی۔ یہ سالوں کی مشق، نسلوں کی تربیت، اور خون سے سینچی ہوئی غیرت کا پھل تھا۔ ہم نے صرف ردعمل نہیں دیا، ہم نے نظریاتی برتری کو ثابت کیا۔ ہم نے بتایا کہ ہماری جنگ فقط سرحد کی نہیں، شعور کی ہے۔
پاک فوج فقط ایک ادارہ نہیں، یہ دعاؤں کا مجسمہ ہے۔ یہ وہ خواب ہے جو قائداعظم نے آنکھوں میں سجایا، اور جس کی تعبیر ہر نسل نے اپنے خون سے لکھی۔ یہ صرف وردی نہیں، یہ خاکی تقدیس ہے جس پر دشمن کی نظر پڑے تو اس کی بینائی سلب ہو جائے۔ یہ وہ سائبان ہے، جس کے سائے میں ہمارے قلم آزاد ہیں، مسجدیں روشن ہیں، ماہیں چین کی نیند سوتی ہیں، اور بچوں کی ہنسی بے خوف گونجتی ہے۔
پاک فضائیہ ہو یا زمینی لشکر، سب ایک ہی جسم کی رگیں ہیں — کسی میں خون دوڑتا ہے، کسی میں جست، کسی میں جنون، اور کسی میں خاموشی سے مرنے کی ہنر مندی۔ یہ وہ لشکر ہے جو بظاہر نظر آتا ہے، مگر اصل میں ہر دعائے نیم شب میں شامل ہوتا ہے۔ یہ صرف بارڈر پر متعین سپاہی نہیں، یہ ہماری چھتوں پر چھائی اطمینان کی چادر ہیں۔
شہادت ان کے لیے فقط انجام نہیں، آغاز ہے۔ ان کے جنازے فقط تختے پر رکھے تابوت نہیں، بلکہ قوم کی پیشانی پر رکھے تاج ہیں۔ جب کوئی سپاہی مٹی سے لپٹتا ہے، تو زمین سانس لیتی ہے، اور وطن ایک اور چراغ سے منور ہوتا ہے۔
تو اے دلیرانِ خاک! تم واقعی نگینگانِ افلاک ہو۔ تمھاری پرواز فقط فضاؤں تک نہیں، تم ہمارے دلوں کے حوصلوں میں، ہماری شاعری کی بحروں میں، ہماری ماں کی ہر لوری میں ہو۔ تم ہی وہ خاک کے تاج ہو، جنہوں نے آسمان کو اپنا غلام کر لیا۔ تمھارے قدموں سے زمین سرسبز ہے، اور تمھاری اڑان سے ہماری پہچان۔