اسلام آباد ہائیکورٹ نے پارک ویو سٹی کو اضافی ڈویلپمنٹ چارجز کی وصولی سے روک دیا, جسٹس انعام امین منہاس نے ہاؤسنگ سوسائٹی کو پٹیشنرز سے پلاٹس پر اضافی ڈویلپمنٹ چارجز کا تقاضا کرنے سے روک دیا, علیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کو نوٹس کرتےہوئے 10 دنوں میں جواب داخل کرانے کا حکم دیدیا۔
واضح رہے کہ پارک ویو سٹی رہائشی لوگوں سے دوبارہ ڈویلپمنٹ چارجز مانگ رہی تھے جس کے مطابق پانچ مرلے والے سے پانچ لاکھ اور دس مرلے والے سے دس لاکھ ڈویلپمنٹ چارجز لگائے گئے تھے اور پندرہ مئی تک عدم ادائیگی کی صورت میں یہ چارجز ڈبل ہوجانے تھے۔
ایڈووکیٹ ہائیکورٹ اور اس کیس کے پیٹیشنرز قاسم چٹھہ نے کہا ہے کہ لوگوں نے پلاٹس 2018 اور 2021 میں خریدے تھے اور اس وقت جو بھی رقم بنتی تھی مکمل ادا کر دی گئی تھی اور کوئی پوشیدہ چارجز باقی نہیں تھے مگر پانچ سال کے بعد پھر دوبارہ ڈویلپمنٹ چارجز لگانا آئینی قانونی طور پر غلط ہے اور سی ڈی اے کے ڈویلپمنٹ بائی لاز کےمطابق بھی درست نہیں ہے۔
اس پر عدالت نے ڈویلپمنٹ چارجز کے نوٹیفکیشن کو کالعدم کرتے ہوئے سوسائٹی کو ڈویلپمنٹ چارجز لینے سے روک دیا ہے اور فریقین کو طلب کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ پارک ویو سٹی اسلام آباد کے درجنوں رہائشیوں نے گھروں کی تعمیر کے چار سال بعد دوسری بار ڈویلپمنٹ چارجز عائد کرنے پر سوسائٹی آفس کے سامنے شدید احتجاج کیاہے۔ رہائشیوں نے CDA، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سنگین معاملے کا نوٹس لیں، شفاف تحقیقات کرائیں اور سوسائٹی انتظامیہ کو جوابدہ بنائیں۔!
احتجاج میں شریک مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی ڈویلپمنٹ چارجز کی مد میں بڑی رقم ادا کر چکے ہیں، مگر سوسائٹی انتظامیہ نے شفاف جواب دیئے بغیر دوبارہ چارجز عائد کر دیئے ہیں۔ اس اقدام کو سراسر غیر منصفانہ، غیر شفاف اور بلیک میلنگ ہے
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ اس پُرامن احتجاج کو دبانے کے لیے سوسائٹی انتظامیہ نے مبینہ طور پر کرائے کے افراد بلوا کر مظاہرین کے سامنے لا کھڑا کیاگیا، تاکہ خوف و ہراس پیدا کیا جا سکے۔ یہ عمل نہ صرف غیراخلاقی ہے بلکہ شہری آزادیوں کے سراسر خلاف ہے۔
متاثرہ رہائشیوں نے سوسائٹی انتظامیہ سے درج ذیل سوالات اٹھادیئےجس کے مطابق • پہلے سے ادا شدہ ڈویلپمنٹ چارجز کا شفاف حساب کیوں فراہم نہیں کیا جا رہا؟ مسائل کے حل کے بجائے دباؤ ڈالنے اور دھمکانے کا راستہ کیوں اپنایا گیا؟ کیا شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق کی کوئی قدر باقی نہیں رہی؟