قاہرہ: غزہ میں جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرنے کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والے اہم مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہو گئے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق، ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کی بحالی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فریقین کو کسی مشترکہ حل پر لانا تھا، مگر فریقین کے متضاد مؤقف کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس نے مذاکرات کے دوران اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے واضح کر دیا کہ کسی بھی معاہدے کی بنیاد غزہ میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور اسرائیلی افواج کا انخلا ہونی چاہیے۔ دوسری جانب، اسرائیل اس پر بضد ہے کہ جب تک حماس کو مکمل شکست نہیں دی جاتی، اس کی فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
مصری حکومت نے اس دوران ایک نیا جنگ بندی پلان پیش کیا، جس میں 45 دن کی عارضی جنگ بندی، حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ، اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی شامل تھی۔ تاہم حماس نے اس منصوبے کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ:
“ہم کسی بھی صورت میں ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ جنگ بندی صرف تب ممکن ہے جب اسرائیل مکمل طور پر جارحیت روکے اور اپنی فوجیں واپس بلائے۔”
حماس کے مطابق، جنگ کے دوران 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور غزہ کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں صرف وقتی جنگ بندی کافی نہیں بلکہ مستقل اور باوقار حل ضروری ہے۔
موجودہ صورتحال نے خطے میں پائیدار امن کی امیدوں کو مزید دھندلا دیا ہے، جب کہ قاہرہ مذاکرات کے ناکام ہونے سے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔ مصر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ثالثی کی کوششیں جاری رکھے گا، تاہم فریقین کے سخت مؤقف کے باعث کسی فوری بریک تھرو کی امید کم نظر آتی ہے۔