واشنگٹن: امریکا کی بااثر اور معروف ہارورڈ یونیورسٹی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے متنازع مطالبات ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد وفاقی حکومت نے یونیورسٹی کی 2.3 ارب ڈالر کی مالی امداد منجمد کر دی ہے۔
امریکی محکمہ تعلیم کے مطابق، اس فیصلے کے تحت ہارورڈ کی 2.2 ارب ڈالر مالیت کی گرانٹس اور 60 ملین ڈالر کے جاری معاہدے روک دیے گئے ہیں۔ اس اقدام سے ملک کی سب سے امیر اور باوقار تعلیمی ادارے اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، جمعہ کے روز ٹرمپ حکومت نے یونیورسٹی کو ایک خط ارسال کیا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ طلبہ اور اساتذہ کے اختیارات محدود کرے، بیرون ملک سے آنے والے طلبہ کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرے، اور ہر شعبے پر نگرانی کے لیے ایک بیرونی نگران ادارہ تعینات کرے۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے ان مطالبات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں آئین اور قانونی دائرہ کار سے متجاوز قرار دیا۔ قائم مقام صدر ایلن گاربر نے بیان میں کہا:
“کسی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی نجی تعلیمی ادارے کو یہ ہدایت دے کہ وہ کیا پڑھائے، کن موضوعات پر تحقیق کرے یا کس کو داخلہ دے۔ یہ آزادیِ تعلیم کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔”
یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ میں ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ یونیورسٹی پر یہود مخالف رویے روکنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے اس کی 8.7 ارب ڈالر مالیت کی ممکنہ گرانٹس کا بھی جائزہ لینے کا عندیہ دیا تھا، جس پر بھی خاصا ردعمل سامنے آیا تھا۔
یہ واقعہ نہ صرف امریکا کی تعلیمی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے بلکہ نجی جامعات کی خودمختاری کے حوالے سے بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔