اسلام آباد ۔متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی حکومت نے پاکستانی شہریوں کے لیے پانچ سالہ ملٹی پل انٹری ٹورسٹ ویزا کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ یہ ویزا پہلے ہی دنیا بھر کے افراد کے لیے دستیاب تھا، اور اب پاکستانی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
یہ سیاحتی ویزا پانچ سال کے لیے کارآمد ہوگا، اور اس کے تحت کسی بھی ضمانت دہندہ یا میزبان کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ویزا رکھنے والا شخص متعدد بار یو اے ای میں داخل ہو سکے گا۔
ہر دورے پر سیاح کو 90 دن تک قیام کی اجازت دی جائے گی، جسے مزید 90 دن کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایک کیلنڈر سال میں مجموعی قیام کی مدت 180 دن سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
عدنان پراچہ: ’یہ ویزا پاکستانیوں کے لیے ایک خوش آئند موقع ہے‘
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین محمد عدنان پراچہ نے اس اقدام کو پاکستان کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ ویزا ان افراد کے لیے سہولت بنے گا جو بار بار یو اے ای کا سفر کرتے ہیں، خصوصاً سیاحوں اور کاروباری حضرات کے لیے یہ بڑی آسانی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ویزا کی پانچ سالہ مدت کی وجہ سے بار بار ویزا حاصل کرنے کی پریشانی ختم ہو گئی ہے، اور اس سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔
ویزے کے حصول کا طریقہ کار
اس ویزے کے لیے درخواست دہندہ کو کچھ بنیادی دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
-
گزشتہ 6 ماہ کی بینک اسٹیٹمنٹ جس میں کم از کم 4,000 امریکی ڈالر (یا مساوی کرنسی) کا بیلنس ہو
-
تصدیق شدہ ہوٹل ریزرویشن یا میزبان کے ہاں قیام کی تفصیلات
-
واپسی کا کنفرم ایئر ٹکٹ
-
ہیلتھ انشورنس
-
بایومیٹرک تصدیق
یہ تمام عمل کراچی یا اسلام آباد کے مجاز سینٹرز پر مکمل کیا جا سکتا ہے۔ فیس کی ادائیگی کے بعد ویزا عموماً 3 سے 4 دن میں جاری ہو جاتا ہے۔
عدنان پراچہ نے یہ بھی واضح کیا کہ اگرچہ ویزا ایک بڑی سہولت ہے، لیکن یو اے ای امیگریشن حکام تمام دستاویزات کی جانچ کے بعد ہی ویزا جاری کرتے ہیں، اور درخواست مسترد ہونے کا امکان اب بھی موجود ہے۔
عدنان پراچہ نے اس بات پر زور دیا کہ یو اے ای کی جانب سے ٹورسٹ ویزا کی سہولت کے بعد اب پاکستان کے لیے ورک ویزا کی بحالی بھی ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دو سال قبل پاکستان سے تقریباً 2 لاکھ 30 ہزار افراد یو اے ای گئے تھے، لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر 70 ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔
ان کے مطابق، “پاکستان کی تربیت یافتہ افرادی قوت یو اے ای کو ہمیشہ ترجیح دیتی ہے، اور ہمیں اُمید ہے کہ یو اے ای حکومت جلد ایمپلائمنٹ ویزا پالیسی پر بھی نظرِ ثانی کرے گی۔”
عدنان پراچہ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ زرمبادلہ یو اے ای سے آتا ہے، جہاں 15 لاکھ کے قریب پاکستانی مقیم ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ یو اے ای حکام سے مذاکرات کرے تاکہ پاکستانی ورک فورس کے لیے ویزا پالیسی بحال کی جا سکے۔