اسلام آباد۔ سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد آئینی تقاضا ہے۔یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہو، اور انتظامی اداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے پاس فیصلوں پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں اقلیتیوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے کی دسویں سالگرہ کے موقع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انہیں قائم مقام چیف جسٹس پاکستان قرار دیا گیا جو کہ درست نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ سینئر ترین جج ہیں، لیکن قائم مقام چیف جسٹس نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان ہیں اور ان کے دوست ہیں، اور وہ خود سینئر ترین جج کی حیثیت سے ہی مناسب ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صحت مند اور تندرست ہیں، اور دعا کی کہ اللہ انہیں صحت عطا فرمائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے آئین کی خوبصورتی یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، جو کہ افسوسناک ہے۔ سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے بنیادی حقوق پر 2014 میں فیصلہ دیا تھا، اور یہ ناممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو، مگر یہاں ایک مثال موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں موجود افراد شاید سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہوتا ہے اور یہی آئین کی بنیاد ہے۔ حال ہی میں ہم نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے، کیونکہ یہ آئین کی حیثیت سے آتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ فیصلے کو غلط قرار دے، آئین کے مطابق فیصلوں پر عمل درآمد ضروری ہے، ورنہ پورے قانونی نظام کو بگاڑ دیا جائے گا اور آئین کا توازن خراب ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کے تحت بھی ہر ادارے کو مخصوص کام دیے گئے ہیں، اور اگر اس نظام کو بگاڑا گیا تو یہ جمہوریت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا کوئی احسان یا بوجھ نہیں ہے بلکہ یہ آئینی ذمہ داری ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ فیصلے کی درستگی پر اختلاف کرے، یہ صرف سپریم کورٹ کا حق ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے اور یہی ملکی نظام اور آئین ہے۔ اگر کوئی نیا نظام بنانا چاہتے ہیں تو پہلے وہ بنائیں، پھر اس حوالے سے بات کی جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ فیصلوں پر عمل درآمد آئینی تقاضا ہے اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ اگر فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوگا تو ہم اس مسئلے کو دیکھیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ اپنے اختیارات کے مطابق فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرائیں گے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہوگا، اور آئین کے تحت اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک عدالتی فیصلے میں اقلیتیوں کو ملازمتوں میں کوٹے کی حفاظت فراہم کی گئی۔ ہمیں ملک میں بین المذاہب مکالمے کی ضرورت ہے، کیونکہ تمام مذاہب ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تحمل کی طرف آنا ہوگا، کیونکہ تحمل سے معاشرتی امن قائم ہوتا ہے، اور یہ ترقی اور نوکریوں کے مواقع میں اضافہ کرتا ہے۔ عدم تحمل معاشرے میں بدامنی اور تقسیم پیدا کرتا ہے، اور تشدد ملک کو معاشی بدحالی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان اقدامات پر عمل درآمد کرے۔